کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 89
کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقے کو جانیں اور اس کو اچھی طرح پہچاننے کی کوشش کریں کیونکہ صحابہ کرام آپ ہی کی سنت پر عمل پیرا تھے۔ لہٰذا اگر کوئی مسلمان فرقہ ناجیہ میں سے ہونا چاہتا ہے تو اس کے لیے سب سے بہترین اور واضح راستہ یہ ہے کہ وہ سلف صالحین کے مانند کتاب و سنت کی پیروی کرلے۔ یہ تیسرا امر تمام مسلمانوں کے اذہان و قلوب میں راسخ ہونا ضروری ہے اگر وہ اپنے اس دعویٰ میں سچے ہیں کہ وہ کل بروز قیامت فرقہ ناجیہ میں سے ہونا چاہتے ہیں: ((یوم لا ینفع مال ولا بنون إلا من أتی اللّٰہ بقلب سلیم۔))[1]’’وہ قیامت کا دن ایسا دن ہوگا کہ وہاں مال و جائداد بچے کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکیں گے ہاں جس کو اللہ تعالیٰ نے قلب سلیم عطا کیا ہو۔‘‘
[1] ۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کا یہ قول: ’’وعلی ما کان علیہ السلف الصالح‘‘ اس بات پر واضح دلیل ہے کہ کتاب و سنت کے نصوص کو اسی طرح سمجھا جائے جس طرح صحابہ کرام نے سمجھا تھا۔ صحابہ کرام کے فہم کو چھوڑ کر دوسروں کے فہم پر اعتماد کرنا صحیح نہیں ہے۔ البتہ بعض متاخرین فقہاء نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فہم نص کو چھوڑ کر اپنے فہم کی بنیاد پر مسئلے کو راجح قرار دیا ہے جیسا کہ بعض شوافع سے حدیث ’’کنت نھیتکم من زیارۃ القبور فزوردھا‘‘ ’’میں نے تم لوگوں کو زیارت قبور سے منع کیا تھا لیکن اب تم اس کی زیارت کرسکتے ہو۔‘‘ کے سلسلے میں واقع ہوا ہے علامہ نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم (4/50) میں اس حدیث کے تحت لکھا ہے: یہ ان احادیث میں سے ہے جو ناسخ اور منسوخ کو جمع کردیتی ہیں ۔ نیز یہ حدیث واضح دلیل ہے کہ آدمیوں کو زیارت قبور سے منع کرنے والی حدیث منسوخ ہے، اب لوگوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ مردوں کے حق میں زیارت قبور سنت ہے۔ رہا عورتوں کا مسئلہ تو اس سلسلے میں ہمارے اصحاب میں اختلاف ہے جس کو ہم نے اس سے پہلے بیان کردیا ہے اور یہ بھی بیان کردیا ہے کہ جن لوگوں نے عورتوں کو منع کیا ہے انہوں نے کہا کہ عورتیں مردوں کے خطاب میں داخل نہیں ہیں۔ اصولیوں کے نزدیک یہی مذہب صحیح ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ قول اُمّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے فہم نص کے خلاف ہے اور ظاہر بات ہے کہ اُمّ المومنین رضی اللہ عنہا کا فہم حدیث دوسروں کے فہم پر مقدم ہوگا، کیونکہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں اور یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حدیث کو روایت کرتی ہیں۔ ان کا شمار فقہاء میں ہوتا ہے۔ عبد اللہ بن ابی ملیکہ نے روایت کیا ہے کہ ایک دن عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا قبروں کی زیارت سے واپس آرہی تھیں تو میں نے ان سے کہا کہ اے اُمّ المومنین! آپ کہاں سے تشریف لارہی ہیں؟ انھوں نے جواب دیا: میں عبد الرحمن بن ابی بکر کی قبر کے پاس سے آرہی ہوں۔ پھر میں نے عرض کیا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیارت قبور سے منع نہیں کیا تھا؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں، لیکن پھر /