کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 87
حبشی غلام کو حاکم بنادیا جائے اور تم میں سے جو شخص زندہ رہے گا تو وہ بہت اختلافات دیکھے گا تو (ایسے وقت میں) تم میرے بعد میری سنت اور خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا اور اس کو دانتوں سے مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہنا (یعنی اس پر سختی سے کار بند رہنا) اور نئے نئے اعمال سے بچتے رہناکیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ دوسری حدیث میں ((کل ضلالۃ فی النار)) کی زیادتی ہے یعنی ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔[1]
[1] ۔ اس سے دلیل پکڑا ہے اس کا مطلب ہے کہ یہ حدیث ان کے نزدیک صحیح ہے، لیکن بعض لوگوں نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے اور اس کو صحیح قرار دینے کی وجہ سے شیخ البانی رحمہ اللہ کا ردّ کیا ہے۔ شیخ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’النصیحۃ‘‘ میں ان کے سارے شبہات کا بہترین اور تسلی بخش جواب دیا ہے۔ چونکہ دوسرے مقامات پر ہم نے اس کے تمام طرق کو بیان کردیا ہے لہٰذا یہاں اس کے دوبارہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے… چونکہ حدیث کا آخری ٹکڑا ’’وکل ضلالۃ فی النار‘‘ عرباض کی حدیث کا حصہ نہیں ہے اس لیے اس پر تنبیہ کرنا ضروری ہے۔ دراصل یہ ٹکڑا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے۔ حدیث اس طرح ہے: ((قال: کان رسول اللّٰه صلي الله عليه وسلم إذا خطب اصمرت عیناہ، وعلاصوتہ، واشتد غضبہ، حتی کأنہ منذر جلیش، یقول: صحکم ومساکم، ویقول بعثت أنا والساعۃ کھاتین ویقرن بین إصبعیہ السبابۃ والواسطیٰ، وئقول: أما بعد، فإن خیر الحدیث کتاب اللّٰہ، وخیر الہدی ہدی محمد، وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃ ضلالۃ، ثم یقول: أنا أولی بکل مؤمن من نفسہ، من ترک مالا فلأہلہ،ومن ترک دینا أوضیاعافاتی وعلّی))جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو آپ کی دونوں آنکھیں سرخ ہوجاتیں اور آپ کی آواز بلند ہوجاتی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم غضبناک انداز میں ہوجاتے، گویا کہ آپ کسی لشکر سے ڈرا رہے ہیں اور کہتے: کہ وہ لشکر تمہیں صبح کو آلے گا اور تمہیں شام کے وقت آلے گا اور فرماتے کہ بھیجا گیا ہوں میں اور قیامت جیسے یہ دونوں انگلیاں ہیں اور آپ اپنی سبابہ اور درمیانی انگلی کو ملاتے اور فرماتے: اما بعد: بے شک بہترین بات اللہ کی کتاب اور بہترین راستہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے اور برے کام وہ ہیں جو ایجاد کیے جائیں اور ہر بدعت گمراہی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے میں ہر مومن پر اس کے نفس سے زیادہ حق رکھتا ہوں جو شخص مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے اہل و عیال کا ہے اور جو قرض یا ضرورت مند بچے چھوڑ جائے وہ میری طرف ہیں اور مجھ پر ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم: 2/592، نسائی:3/188، ابن ماجہ: 45) اب رہا حدیث میں جملہ ’’کل ضلالۃ فی النار‘‘ کی زیادتی تو یہ نسائی اور بیہقی ’’الأسماء والصفات‘‘ میں ہے اور یہ جملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ اس کو میں نے اپنی کتاب: ’’الزیادات الضعیفۃ فی الأحادیث الصحیحۃ‘‘ میں تفصیل سے بیان کردیا ہے۔ ابن وضاح نے ’’البدع والنہی عنہا‘‘ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول بتایا ہے اور کہا کہ اس کی سند حسن ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)