کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 71
ہم قرآن مجید کی ایک آیت سے اپنی گفتگو[1] کا آغاز کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ} (التوبہ:100) ’’اور مہاجرین اور انصار میں سے وہ پہلے جو ایمان میں سبقت کرنے والے ہیں اور وہ لوگ جنہوں نے اخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ لوگ اللہ سے راضی ہوگئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغات تیار رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ لوگ ان میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘ کون سی دعوت صحیح ہے اور کون سی دعوت صحیح نہیں ہے اس کی پہچان کے لیے یہ آیت کریمہ ایک اساس اور بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس آیت میں اس بات کی رغبت دلائی گئی ہے کہ سلف صالحین کی پیروی کرو اور انھیں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرو اور سلف صالحین سے مراد یہاں صحابہ کرام ہیں لہٰذا ان کی پیروی کرنا گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا ہے اور صحیح منہج یعنی کتاب و سنت کو لازم پکڑنا ہے۔ یہی بات {وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ} میں بتائی گئی ہے۔ یعنی جن لوگوں نے خلوص و للہیت کے ساتھ انصار و مہاجرین کی پیروی کی اور انہیں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی مطلب یہ ہے کہ جس طرح سلف صالحین نے کتاب و سنت کو سمجھا ہے اسی طرح کتاب و سنت کو سمجھا جائے اور انہی دونوں کو لازم پکڑ کر انہی کے مطابق اپنی عملی زندگی کو ڈھالا جائے یہی سلفی دعوت ہے۔
[1] ۔ دراصل یہ کتاب شیخ البانی رحمہ اللہ کا محاضرہ ہے جس کو افادۂ عام کی خاطر کیسٹوں سے جمع کرکے کتابی شکل دے دی گئی ہے۔