کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 56
سب سے پہلے اپنے عقائد سلف سے لینے چاہیے یا ان سے جو اس بات کا محض اقرار کرتے ہیں کہ سلف کا راستہ محفوظ ترین ہے مگر ان کا راستہ علم و فہم کے اعتبار سے ان سے بہتر ہے؟ بلا شبہ دلائل کی روشنی میں یہ بات واضح ہے جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ اس دور میں ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنے عقائد کا موازنہ سلف صالحین کے عقائد سے کریں پھر اس کے بعد اپنے احکامات، اخلاقیات اور سلوک میں بھی ہمیں سلف کی جانب رجوع لازم ہے۔ وہ سلف جو اختلاف کے وقت قرآن وسنت پر انحصار کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ نجات نہیں سمجھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم میں ارشاد ہے: {فَـلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَاشَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا} (النسائ: 65) ’’سو قسم ہے تیرے پروردگار کی یہ ایماندار نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دلوں میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں۔ـ‘‘ آج بدقسمتی سے ہم ایسے گروہ اور جماعتیں نہیں پاتے جو ہمارے ساتھ اس علاج کو اپنانے کے لیے راضی اور متفق ہوں۔ مسلمانوں کو اپنی شان وشوکت اور قوت وغلبہ حاصل کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ وہ اپنے دین کی طرف رجوع کریں۔ یہ ایک ایسا نقطہ ہے کہ جس پر مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں، اس بات سے قطع نظر کہ ان کی وفاداریاں اور ان کی وابستگی کس مخصوص گروہ یا جماعت سے ہے اور اس بات سے بھی قطع نظر کہ ان کا تعلق کس مکتبہ فکر سے ہے۔ بہرحال اختلاف اس وقت ابھرتا ہے جب دین کے صحیح فہم کا معاملہ آتا ہے۔ جس طرح کہ میں نے پہلے اس بات کی نشاندہی کی کہ ہمارے سامنے دو مکتبہ فکر ہیں،