کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 51
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عینہ، بیلوں کی دموں کو تھام لینے اور کھیتی باڑی پر اکتفا کرنے کے ساتھ ساتھ ترک جہاد کو بھی ایک سبب گردانا ہے اور یہ ترک جہاد بھی ایک عام جرم کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بلا استثناء عرب و غیر عرب سب نے ہی جہاد کو خیر باد کہہ دیا ہے۔ جبکہ امر واقعی یہ ہے کہ ان تمام ریاستوں کے قبضہ میں وہ تمام وسائل میسر ہیں جو کہ جہاد کے لیے لازمی ہیں اور دوسری جانب ان پر جوش نوجوانوں کے پاس یہ وسائل میسر نہیں کہ جس سے وہ نہ صرف اپنے ملکوں، زمینوں بلکہ اپنی عزت وحریت ہی کا دفاع کر سکیں۔ آخر کار ان تمام مخالف شریعت کاموں میں مصروف عمل ہونے اور اللہ کے محارم کو حلال کرنے کا منطقی وقدرتی نتیجہ یہی نکلنا تھا: {تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا} ’’اور تم اللہ تعالیٰ کی سنت وطریقے کو کبھی بدلتا ہوا نہیں پاؤ گے۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ پر یہ حق بنتا تھا کہ وہ ان پر ذلت و رسوائی مسلط کر دے۔ یہ ذلت وپستی ہر مسلم ملک پر اپنے پنجے گاڑ چکی ہے حالانکہ وہ بظاہر اس دنیا کے نقشے پر آزاد ممالک کی حیثیت سے اپنا وجود رکھتے ہیں مگر درحقیقت وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اپنے ممالک میں بھی عمل نہیں کر سکتے۔ انہیں ایک صحیح حدیث کے مطابق اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ: ((جاہدوا المشرکین بانفسکم واموالکم والسنتکم))[1] ’’مشرکین سے اپنی جانوں، مالوں اور زبانوں کے ذریعہ جہاد کرو۔‘‘ اب ہم نے اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کو تو بالکل ہی ترک کر دیا ہے اور اسے صرف محدود کر دیا ہے اپنے مال تک اس کی فراوانی کے باعث اور زبانی تک اس کی آسانی کے باعث حتیٰ کہ اس دور میں جان کے ساتھ جہاد بدقسمتی سے ایک گزری ہوئی داستان کی مانند
[1] ۔ ابوداود: 2/ 695، وصححہ الالبانی فی المشکوۃ: 3821، وفی الصحیح الجامع: 3090۔