کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 40
’’اور اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ اور دوسری آیت میں فرمایا: {وَ مَا یُؤْمِنُ اَکْثَرُہُمْ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ہُمْ مُّشْرِکُوْنَ،} (یوسف: 106) ’’اور اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود شرک میں مبتلا ہوتے ہیں۔‘‘ مسلم امہ کی اس حالت زار کی نشاندہی رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پہلے ہی فرما چکے تھے جس کا آج ہم اور ہم سے پہلے ہمارے آباء واجداد مشاہدہ وسامنا کر چکے ہیں۔ دین میں تفرقہ بازی، گروہ بندی اور دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینا عام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان مبارک کے سراسر خلاف: {وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَ کَانُوْا شِیَعًا کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُوْنَ،} (الروم: 31۔ 32) ’’اور ان مشرکوں میں سے نہ ہونا جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود بھی گروہ گروہ ہوگئے، ہر گروہ اس چیز پر جو اس کے پاس ہے مگن ہے۔‘‘ اور اس فرمان کی بھی نافرمانی کرتے ہوئے: {وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ …} (الانعام: 153) ’’اور یہ کہ دین میرا سیدھا راستہ ہے جو مستقیم ہے، سو اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی۔‘‘ مزید برآں خود نبی اکرم( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے ان ’’مختلف راہوں‘‘ کی وضاحت فرمائی چنانچہ ایک صحیح حدیث میں اس کا مکمل نقشہ کھینچا گیا ہے کہ کس طرح مسلمانوں کی اکثریت صراط مستقیم سے ہٹ جائے گی۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے زمین پر ایک سیدھی خط کھینچی اور