کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 37
کہ کسی ایسے ملک میں جہاں اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مطابق فیصلے نہیں ہوتے وہاں اسلامی ریاست قائم ہو جائے کیونکہ وہ پہلی بات جس میں اللہ تعالیٰ کی شریعت کے مطابق حکم ہونا چاہیے وہ اقامت توحید ہے اور اس کے علاوہ بھی بیشک کچھ ایسے خاص امور ہیں جو بعض دور کی پیداوار ہیں جن سے الگ تھلک رہنا اختلاط سے بہتر ہے یعنی ایک مسلمان معاشرے سے الگ ہو کر اپنے رب کی عبادت میں لگا رہے اور خود کو لوگوں کے شر سے بچائے اور لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھے، اس بارے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ اگرچہ جو اصل اصول ہے وہ تو یہی ہے جیسا کہ ابن عمر(رضی اللہ عنہما) کی حدیث میں بیان ہوا: ((المومن الذی یخالط الناس ویصبر علی اذاہم خیر من المومن الذی لا یخالط الناس ولا یصبر علی اذاہم))[1] ’’وہ مومن جو لوگوں سے مل ملاپ کرتا ہے اور ان کی جانب سے پہنچنے والی اذیتوں پر صبر کرتا ہے اس مومن سے بہتر ہے جو نہ لوگوں کے ساتھ مل کر رہتا ہے اور نہ ہی ان کی جانب سے ملنے والی اذیتوں پر صبر کرتا ہے۔‘‘ پس ایک اسلامی ریاست بلا شبہ ایک وسیلہ ہے اللہ تعالیٰ کا حکم زمین پر قائم کرنے کا مگر یہ بذات خود کوئی غرض وغایت نہیں۔
بہت عجیب بات ہے کہ بعض داعیان اس بات کا اہتمام تو کرتے ہیں جو حقیقتاً ان کے بس میں نہیں اور اس بات کو چھوڑ دیتے ہیں جو ان پر واجب ہے اور آسان بھی اور وہ اپنے نفس کا مجاہدہ کرنا ہے جیسا کہ ایک مسلمان داعی کا قول ہے جس قول کی وصیت میں اس داعی کے پیروکاروں کو کرتا ہوں: ((اقیموا دولۃ الاسلام فی نفوسکم تقم لکم فی ارضکم)) ’’اپنے دلوں پر اسلامی حکومت قائم کر لو وہ تمہارے لیے تمہاری زمینوں پر بھی قائم کر دی جائے گی۔‘‘
اس کے باوجود ہم بہت سے ان کے پیروکاروں کو پاتے ہیں کہ وہ اس بات کی مخالفت کرتے ہیں، اپنی دعوت کا ایک غالب حصہ اللہ تعالیٰ کو اس کی حاکمیت میں اکیلے ماننے پر زور
[1] ۔ حدیث صحیح: رواہ الترمذی 2507 وابن ماجہ 4032والبخاری فی الادب المفرد 388 واحمد 5/ 365، من حدیث شیخ من اصحاب رسول اللہ رضی اللّٰه عنہ وصحح الالبانی فی الصحیحۃ 939۔