کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 35
بھی مختلف ہوتے ہیں۔ چنانچہ آج کے اس دور میں ایک عالم پر واجب ہے کہ وہ بقدر استطاعت حق بات کی جانب دعوت دے اور جو عالم نہیں ہے اسے چاہیے کہ جو بات اس سے یا اس کے زیر کفالت لوگوں جیسے بیوی بچے وغیرہ سے تعلق رکھتی ہے اس کا سوال علمائے کرام سے کرے۔ اگر مسلمانوں کے یہ دونوں فریق اپنی استطاعت بھر ذمہ داری نبھاتے رہیں تو یقینا نجات پا جائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا} (البقرۃ: 286)
’’اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتا۔‘‘
ہم صد افسوس مسلمانوں کے ایسے پر الم دور سے گزر رہے ہیں جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی، یہ کہ کفار چاروں طرف سے مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحیح ومعروف حدیث میں اس کی خبر دی کہ: ((تداعی علیکم الامم کما تداعی الاکلۃ الی قصعتہا، قالوا: امن قلۃ نحن یومئذ یا رسول اللّٰه ؟ قال:’’لا انتم یومئذ کثیر، ولکنکم غثاء کغثاء السبیل، ولینزعن اللّٰه الرہبۃ من صدور عدوکم لکم، ولیقذفن فی قلوبکم الوہن‘‘، قالوا:: وما الوہن یا رسول اللّٰه ؟ قال: ’’حب الدنیا وکراہیۃ الموت‘‘))[1]’’تم پر چاروں طرف سے قومیں ٹوٹ پڑیں گی جیسا کہ کھانے والے ایک دوسرے کو پلیٹ کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنهم نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس زمانے میں ہماری قلت تعداد کی بنا پر وہ ایسا کریں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں، تم اس زمانے میں بہت کثیر تعداد میں ہوگے لیکن تمہاری حیثیت سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے خس و خشاک کی سی ہوگی، اللہ تعالیٰ تمہارا رعب وہیبت کافروں کے دلوں سے نکال دے گا۔ اور تمہارے دلوں میں ’’وہن‘‘ ڈال دے گا انہوں نے دریافت کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ’’وہن‘‘ کیا ہے؟
[1] ۔ حدیث صحیح: رواہ ابوداود 4297 واحمد 5/287 من حدیث ثوبان رضی اللہ عنہ وصححہ بطریقیہ الالبانی فی الصحیحۃ 958۔