کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 34
ذمہ داری ہے جو اہل حل وعقد ہیں، جن کے لیے یہ ممکن بھی ہے کہ اس معرفت سے وہ عملی استفادہ حاصل کر پائیں۔ جہاں تک معاملہ ہے ان لوگوں کا جن کے ہاتھ میں نہ حل ہے نہ ہی عقد اور وہ لوگوں کو ان باتوں میں مشغول کر رہے ہیں جو اہم تو ہیں مگر اہم ترین نہیں، تو یہ بات انہیں صحیح معرفت سے دور لے جاتی ہے۔ یہ بات تو ہم آج بہت سے اسلامی گروپوں اور جماعتوں کے مناہج میں باقاعدہ ہاتھوں سے چھو کر محسوس کر سکتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ بعض ایسے داعیان جو نوجوانوں کو جو ان کے گرد اس لیے جمع ہوتے ہیں کہ وہ انہیں صحیح عقیدہ، عبادت اور سلوک کی تعلیم دیں اور سمجھائیں تو وہ انہیں اس سے پھیر دیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد یہ داعیان سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اور ان پارلیمنٹ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی شریعت کے خلاف فیصلے کرتی ہے پس وہ انہیں اس اہم ترین چیز سے پھیر دیتے ہیں اس چیز کی طرف جو ان موجودہ حالات میں اہم نہیں ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے جو سوال میں پوچھی گئی تھی کہ کیسے ایک مسلمان ان پر الم حالات میں اپنا کردار ادا کر کے بری الذمہ ہو سکتا ہے تو ہم کہتے ہیں: ہر مسلمان اپنی استطاعت کے مطابق کام کرے، ان میں سے ایک عالم کی جو ذمہ داری ہے وہ غیر عالم کی نہیں جیسا کہ میں اس قسم کی مناسبت میں بیان کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت اپنی کتاب کے ذریعہ مکمل فرما دی ہے اور اسے مسلمانوں کے لیے ایک دستور بنا دیا ہے۔ اسی دستور میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے کہ: {فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ} (الانبیائ: 7) ’’اہل ذکر (علمائے کرام) سے سوال کرو اگر تمہیں علم نہ ہو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اسلامی معاشرے کو دو اقسام میں تقسیم فرمایا ایک عالم اور دوسرے غیر عالم اور ان میں سے ہر ایک پر وہ واجب قرار دیا جو دوسرے پر واجب نہیں، پس جو علماء نہیں ان پر واجب ہے کہ وہ اہل علم سے دریافت کریں اور علمائے کرام پر یہ واجب ہے کہ وہ جس چیز کی بابت دریافت کیا جا رہا ہے اس کا جواب دیں، اسی طریقہ پر شخصیات مختلف ہونے پر واجبات