کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 32
اسی لیے ان دو اہم باتوں ونقاط کو متحقق کرنے سے پہلے کسی بھی اسلامی معاشرے میں جہاں شریعت کا نفاذ نہ ہو وہاں کسی سیاسی تحریک میں حصہ لینا برے اثرات مرتب کرنے کا پیش خیمہ ہوگا۔ ہاں! نصیحت وخیر خواہی کرنا سیاسی تحریک کی جگہ لے سکتا ہے کسی بھی ایسے ملک میں جہاں شریعت کی تحکیم ہو (خفیہ) مشورہ دینے کے ذریعہ یا پھر الزامی وتشہیری زبان استعمال کرنے سے پرہیز کرتے ہوئے شرعی ضوابط کے تحت بطور احسن ظاہر کرنے کے ذریعہ، پس حق بات کو پہنچا دینا حجت کو تمام کرتا ہے اور پہنچا دینے والے کو بری الذمہ کرتا ہے۔ نصیحت وخیر خواہی میں سے یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں کو اس چیز میں مشغول کریں جو انہیں فائدہ پہنچائے جیسے عقائد، عبادت، سلوک اور معاملات کی تصحیح، ہو سکتا ہے بعض لوگ یہ گمان کرتے ہوں کہ ہم تصفیہ وتربیہ کو تمام کے تمام اسلامی معاشروں میں نافذ ہو جانے کی امید رکھتے ہیں! ہم تو یہ بات نہ سوچتے ہیں اور نہ ہی ایسی خام خیالی میں مبتلا ہیں کیونکہ ایسا ہو جانا تو محال ہے اس لیے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ: {وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَo} (ہود: 118) ’’اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی امت بنا دیتا مگر یہ لوگ ہمیشہ اختلافات میں ہی رہیں گے۔‘‘ البتہ ان لوگوں پر ہمارے رب تعالیٰ کا یہ فرمان لاگو نہیں ہوگا اگر یہ اسلام کا صحیح فہم حاصل کریں اور اس صحیح اسلام پر خود اپنی، اپنے اہل وعیال اور گرد ونواح کے لوگوں کی تربیت کریں۔ سیاسی عمل میں کون حصہ لے، اور کب؟ آج کل سیاسی عمل یا سرگرمی میں حصہ لینا ایک مشغلہ بن گیا ہے حالانکہ ہم اس کے منکر نہیں مگر ہم بیک وقت ایک شرعی ومنطقی تسلسل یہ ایمان رکھتے ہیں کہ ہم تصحیح و تربیت کے اعتبار سے عقیدے سے شروع کریں، پھر عبادت پھر سلوک پھر اس کے بعد ایک دن آئے گا جب ہم سیاسی مرحلے میں داخل ہوں گے مگر اس کے شرعی مفہوم کے مطابق کیونکہ سیاست کا معنی