کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 29
وپریشان ہوتے ہیں سوائے جس پر اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔ صحیح عقیدے کی جانب دعوت عظیم جہد مسلسل کی متقاضی ہے لہٰذا توحید کی جانب دعوت اور اسے لوگوں کے دلوں میں راسخ کرنا ہم سے اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم آیات پر سے بنا تفصیل سے نہ گذر جائیں جیسا کہ عہد اول میں تھا کیونکہ اولاً تو وہ عربی عبارات کو بآسانی سمجھ لیتے تھے اور ثانیاً وہ اس چیز پر قائم تھے جو صحیح عقیدے کے ہرگز مخالف نہ تھی کیونکہ ان کے یہاں عقیدے کا وہ انحراف وٹیڑھ پن نہ تھا جو فلسفہ اور علم الکلام کی پیداوار ہے۔ پس ہماری موجودہ صورتحال بالکل مختلف ہے اس سے جو اول دور کے مسلمانوں کی تھی۔ اسی لیے ہم اس وہم میں مبتلا نہ ہوں کہ آج صحیح عقیدے کی جانب دعوت دینا اتنا آسان ہے جیسا کہ عہد اول میں تھا، اس پر مزید روشنی میں ایسی مثال کے ذریعہ ڈالتا ہوں جس کے بارے میں کوئی دورائے نہ ہوگی۔ ان شاء اللہ ان کے دور میں جو آسانی معروف تھی وہ یہ کہ ایک صحابی رسول(رضی اللہ عنہ) سے براہ راست ایک حدیث سنتا پھر ایک تابعی وہ حدیث ایک صحابی سے براہ راست سنتا… اور اسی طرح ہم ان تین زمانوں یا نسلوں تک چلتے ہیں جن کے راہ راست پر ہونے کی گواہی دی گئی ہے اور ہم پوچھتے ہیں: کیا ان کے یہاں کوئی چیز علم حدیث کے نام سے تھی؟ جواب: نہیں، کیا ان کے یہاں کوئی چیز جرح و تعدیل کے نام سے موجود تھی؟ جواب: نہیں جبکہ آج یہ دونوں علوم ایک طالب علم کے لیے لازم ہیں اور یہ فرض کفایہ میں سے ہے اور یہ اس لیے کہ آج ایک عالم حدیث کی معرفت حاصل کر سکے کہ آیا صحیح یا ضعیف پس یہ کام اتنا آسان وسہل شمار نہیں جا سکتا جیسا کہ ایک صحابی کے لیے تھا کیونکہ ایک صحابی حدیث کو دوسرے صحابہ رضی اللہ عنهم سے حاصل کیا کرتا تھا جن کا تزکیہ اللہ تعالیٰ کی ان کے بارے میں گواہی تھی، جو ان دنوں میں آسان تھا وہ آج آسان نہیں کیونکہ ان کے یہاں صاف ستھرا علم تھا اور علم حاصل کرنے کے مصادر ثقہ تھے۔ اسی لیے اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا اہتمام کرنا اسی طرح ضروری ہے جیسا کہ