کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 28
((علی السما))’’آسمان پر ہے۔‘‘ چنانچہ دعوت حق کو قبول کرنے والوں کے لیے اس قسم کی تفصیل جاننا ضروری ہے تاکہ وہ مکمل طور پر دلیل پر قائم ہوں۔ سمجھنے میں اور زیادہ قریب اس لونڈی کے متعلق مشہور ومعروف حدیث ہے جو بکریاں چرایا کرتی تھی، میں صرف اس حدیث میں سے شاہد بیان کروں گا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا: ((این اللّٰہ؟)) ’’اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟‘‘ تو اس نے جواب دیا: ((فی السمائ))[1] ’’آسمان میں یعنی پر ہے۔‘‘ اگر آج آپ جامعہ ازہر کے بڑے مشائخ سے پوچھیں مثلاً اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ تو وہ آپ کو جواب دیں گے: ہر جگہ! جبکہ اس لونڈی تک نے یہ جواب دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان پر ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق فرمائی تھی، کیوں؟ کیونکہ اس نے فطرت کے مطابق جواب دیا۔ وہ ایسے ماحول میں رہتی تھی جسے ممکن ہے کہ ہم اپنی آج کل کی تعبیر کے مطابق ’’سلفی ماحول‘‘ کہہ سکتے ہیں، جس میں عام تعبیر کے مطابق کوئی برا ماحول اثر انداز نہیں ہوا تھا کیونکہ وہ جیسا کہ آج کل کہا جاتا ہے مدرسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فارغ شدہ تھی۔ یہ مدرسہ بعض مردوں اور عورتوں کے لیے خاص نہیں تھا بلکہ یہ تمام لوگوں میں عام تھا جو مردوں اور عورتوں کو متضمن تھا اور اپنے تکمیل پر پورے معاشرے کے لیے عام ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بکریاں چرانے والی لونڈی یہ جانتی تھی کیونکہ کسی خراب ماحول کا اس پر اثر نہ ہوا تھا، وہ کتاب وسنت میں موجود اس صحیح عقیدے کو جانتی تھی جو آج بہت سے کتاب وسنت کے علم کے دعویداروں کو نہیں معلوم۔ وہ جانتے ہی نہیں کہ ان کا رب کہاں ہے! حالانکہ یہ کتاب وسنت میں مذکور ہے۔ میں کہتا ہوں کہ آج اس بیان اور وضاحت میں سے کوئی چیز مسلمانوں کے درمیان موجود نہیں اگر آپ آج بکریوں کی نگہبانی کرنے والی سے نہیں بلکہ امت اور جماعتوں کی نگہبانی کرنے والوں سے پوچھیں تو وہ اس کا جواب دینے کے بارے میں حیران وپریشان ہوں گے جیسا کہ آج بہت سے لوگ اس کا جواب دینے میں حیران
[1] ۔ حدیث صحیح: رواہ مسلم 537، وابوداود 930، والنسائی 1/13۔18 من حدیث معاویۃ بن الحکم السلمی رضي الله عنه۔