کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 27
عقیدے پر ایمان لائے ہیں، ان لوگوں کی تو دور کی بات رہی جو اس قسم کے مسائل میں اشاعرہ، ماتریدیہ اور جہمیہ کے عقائد کی پیروی کرتے ہیں۔ میں نے یہ مثال اس لیے پیش کی کیونکہ یہ مسئلہ اتنا آسان نہیں جیسا کہ آج کچھ داعیان جو قرآن وسنت کی جانب دعوت میں ہمارے ہمنوا ہیں تصور کرتے ہیں، یہ معاملہ اس لیے اتنا سہل نہیں جیسا کہ ان میں سے بعض دعویٰ کرتے ہیں کیونکہ اس کا سبب وہی فرق ہے جو پہلے بیان ہوا اولین جاہلیت کے مشرکین (جنہیں جب دعوت دی جاتی کہ وہ ’’لا الہ الا اللّٰه ‘‘ کہیں تو وہ انکار کرتے کیونکہ وہ اس کلمہ طیبہ کا معنی جانتے تھے) اور موجودہ دور کے اکثر مسلمانوں میں کہ جب یہ کلمہ پڑھتے ہیں تو اس کا صحیح معنی نہیں جانتے۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جو اللہ تعالیٰ کی بلندی کے عقیدے کے بارے میں بھی اب پایا جاتا ہے، یہ بھی وضاحت کا متقاضی ہے اور یہی کافی نہیں کہ ایک مسلمان یہ عقیدہ رکھے۔ {اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی} (طٰہٰ: 5) ’’وہ رحمن ہے جو عرش پر مستویٰ ہوا۔‘‘ ((ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السَّمائ))[1] ’’جو زمین میں ہیں ان پر مہربانی کرو جو آسمان پر ہے وہ تم پر رحم فرمائے گا۔‘‘ بنایہ جانے کہ کلمہ (فی) ’’میں ‘‘ جو اس حدیث میں بیان ہوا ظرفیہ نہیں، اس کی مثال اس (فی) کی سی ہے جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں وارد ہوا {ئَ اَمِنتُمْ مَنْ فِی السَّمَآئِ…} (الملک: 16) ’’کیا تم اس ذات سے بے خوف ہوگئے ہو جو آسمان پر ہے۔‘‘ کیونکہ ’’فی ‘‘ یہاں بمعنی ’’علی‘‘ (پر/ کے اوپر) ہے اور اس کی بہت سی دلیلیں موجود ہیں۔ جن میں سے سابقہ حدیث جو لوگوں کی زبان زد عام ہے اور یہ اپنے مجموعی طرق کے اعتبار سے الحمد للہ صحیح حدیث ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول: ((ارحموا من فی الارض)) ’’جو زمین میں ہیں ان پر رحم کرو۔‘‘ سے حشرات الارض یا کیچوے مراد نہیں جو زمین کے اندر ہوتے ہیں بلکہ اس سے مراد جو ((علی الارض)) زمین پر انسان وحیوان ہیں۔ اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے مطابق ہے: ((یرحمکم من فی السمائ)) ’’جو آسمان (پر) ہے۔‘‘ یعنی:
[1] ۔ حدیث صحیح: رواہ ابوداود 4931، والترمذی: 1925 وصححہ الالبانی فی الصحیحہ 925۔