کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 266
کام کرتا جائے۔
تیسرا اصول… یہ ہے کہ قول و عمل سے پہلے علم ہونا بہت ضروری ہے۔ اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں باب باندھا ہے: باب العلم قبل القول والعمل‘‘ اللہ تعالیٰ کا قول ہے: {فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا اللّٰہُ} (محمد:19) ’’پس جان لو کہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسرا معبود نہیں ہے۔‘‘ یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے علم سے شروع کیا ہے۔ اسی لیے علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ انھوں نے علم کو چھوڑا ہے، لہٰذا جس نے علم حاصل کیا اس نے وافر حصہ حاصل کیا اور جو شخص طلب علم کے لیے اپنے گھر سے نکلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے راستے کو آسان بنا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَقَالُوْا لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا کُنَّا فِیْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ} (الملک:10)
’’وہ لوگ کہیں گے: کاش! ہم نہ سنتے یا سمجھتے تو جہنم والوں میں سے نہ ہوتے۔‘‘
بہرحال قول و عمل سے پہلے علم ہونا بہت ضروری ہے تاکہ کوئی بات کہے تو دلیل کے ساتھ کہے۔ اب اگر وہ کوئی راہ اختیار کرتا ہے تو اس کو پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ راہ کتاب و سنت کے خلاف تو نہیں ہے۔ ایسا نہ ہو کہ منبر پر چڑھ کر حاکم وقت کے خلاف بولنا شروع کردے۔ اس کے خیال میں یہ اصلاح ہے حالانکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہے۔
عیاض بن غنم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((من أراد أن ینصح لذي سلطان، فلا یبدأ علانیۃ، ولکن یأخذ بیدہ، فیخلوا بہ، فإں قبل منہ فذاک، وإلا کان قد أدیٰ الذي علیہ۔))[1]
’’جو شخص سلطان کو نصیحت کرنا چاہتا ہے تو اس کو علانیہ نہیں شروع کرنا چاہیے بلکہ
[1] ۔ مسند احمد، 3/403، کتاب السنۃ العاصم 2/737۔