کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 26
سے ایسے صحیح افکار وعقائد سے جن کا ذکر کتاب وسنت میں موجود ہے۔ پس ان موحدین میں سے بہت سے کئی آیات قرآنی اور بعض احادیث مبارکہ پر سے گزر جاتے ہیں جو کسی عقیدے پر مشتمل ہوتی ہیں مگر وہ اس عقیدے سے غیر متنبہ ہوئے اس پر سے گذرتے ہیں حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ پر ایمان کے اتمام میں سے ہے۔ آپ لے لیں مثلاً یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق پر علو و بلندی پر ایمان لانا۔ میں یہ بات تجربہ سے جانتا ہوں کہ ہمارے بہت سے موحدین سلفی بھائی ہمارے ساتھ یہ کہتے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے اور بنا تاویل وتکییف کے اس کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ لیکن جب ان کے پاس موجودہ دور کے معتزلی یا موجودہ دور کے جہمی یا ماتریدی یا اشعری آکر اس آیت کے ظاہر کو بنیاد بنا کر کوئی شبہ ان کے دلوں میں ڈالتے ہیں جس کا معنی نہ خود وسوسہ گر جانتا ہے اور نہ ہی وسوسے کا شکار، تو وہ اپنے عقیدے کے بارے میں حیران وپریشان ہو جاتا ہے اور اس سے بہت دور کی گمراہی میں جا پڑتا ہے، کیوں؟ کیونکہ اس نے صحیح عقیدے کو جس کا بیان ووضاحت ہمارے رب کی کتاب اور ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں پیش کیا گیا ہے تمام جوانب سے اچھی طرح حاصل نہیں کیا۔ پس جب موجودہ دور کا کوئی معتزلی یہ کہتا ہے: اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتے ہیں: {ئَ اَمِنتُمْ مَنْ فِی السَّمَآئِ}(الملک: 16)’’کیا تم اس ذات سے بے خوف ہوگئے ہو جو آسمان پر ہے۔‘‘ اور تم لوگ یہ کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے اس کا مطلب تو یہ ہے کہ تم نے اپنے معبود کو ایک مکان وجہت یعنی آسمان جو اسی کی مخلوق ہے میں متعین کر دیا: چنانچہ وہ یہ شبہ اپنے مخاطب کے دل میں ڈالتا ہے۔ بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں صحیح عقیدے اور اس کے لوازم کا واضح نہ ہونا اس مثال سے میری مراد یہ بیان کرنا تھاکہ افسوس کی بات ہے عقیدہ توحید اپنے تمام تر لوازم اور مطالبات کے ساتھ بہت سے ان لوگوں تک کے ذہنوں میں واضح نہیں جو خود سلفی