کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 259
دینی امور میں علماء کی طرف رجوع نہ کرنے پر ایک تو ان کا حق ضائع ہوتا ہے اور پھر اس کے علاوہ بہت سے نقصانات ہیں۔ مثلاً امت پر ذلت و رسوائی طاری ہوتی ہے جیسے کہ حدیث ہے ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم عینہ کی تجارت کرنے لگو اور بیلوں کے دم پکڑنے لگو گے اور زراعت و کھیتی کو پسند کرو گے اور جہاد کو ترک کرو گے تو اس وقت اللہ تعالیٰ تم پر ذلت رسوائی کو مسلط کردے گا، اس ذلت کو تم سے اس وقت تک دور نہیں کرے گا جب تک تم اپنے دین کی طرف پلٹ نہ آؤ۔[1] ظاہر بات ہے کہ جب علماء کرام کی طرف رجوع نہیں کریں گے جن علماء کے پاس کتاب و سنت کا علم ہے تو انھیں دینی معلومات نہیں حاصل ہوسکتی۔ بعد میں یہ ہوگا کہ جاہل لوگوں کو اپنا سردار بنائیں گے۔ ان سے بگاڑ کے سوا اور کیا حاصل ہوگا! دین تو وہ ہے جو حدیث جبرئیل میں مذکور ہے، یعنی اسلام، ایمان، احسان اور قیامت کی علامتوں کا بیان ہو۔ اسی حدیث میں ہے کہ جب جبرئیل چلے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: اے عمر تمہیں معلوم ہے یہ کون تھے؟ انھوں نے جواب دیا: اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جبرئیل تھے وہ تمہارے پاس اس لیے آئے تھے تاکہ تمہیں تمہارے دین کی تعلیم دیں۔[2] اسی طرح علماء کی صحبت نہ اختیار کرنے سے مومنوں کے صحیح راستے کا علم نہیں ہوسکتا۔ جب صحیح راستے کا علم نہیں ہوگا تو بدعت اور بدعتی اپنی راہیں اس کے لیے کھول دیں گے اور وہ اسی میں ملوث ہوجائے گا، جیسا کہ آج کل دیکھا جارہا ہے۔ شیعہ، خوارج، معتزلہ اور صوفیوں کا یہی حال ہے۔ یہ لوگ خود گمراہ ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرتے جارہے ہیں۔
[1] ۔مسند احمد، وابوداؤد کتاب البیع حدیث نمبر:(3462) )(عینہ) اس بیع کو کہتے ہیں کہ آدمی ایک چیز مقرر قیمت پر ایک مقرر وقت تک کے لیے فروخت کرلے، جب یہ مقرر وقت مکمل ہوجائے تو خریدار سے وہی چیز کم قیمت پر خرید لے تاکہ زیادہ رقم اس کے ذمہ باقی رہ جائے۔ عینہ اس کا نام اس لیے رکھا گیا کہ فروخت کردہ وہی چیز اسی حالت میں حاصل ہوجائے اور اصل مال خریدار اسے لوٹ کر فروخت کنندہ کے پاس پھر پہنچ جائے [2] ۔ صحیح مسلم حدیث:8۔