کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 245
اختلاف رائے ہونا ضروری ہے مگر یہ اختلاف رائے باہمی اختلافات کا سبب نہیں بنتا ۔ اس کے برخلاف جب مسئلے میں اختلاف ہو اور وہ اختلاف افتراق و انتشار کا سبب بنے تو ایسے مسئلے کو اسلامی مسئلے کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ بلکہ شیطانی مکرو فریب کہا جاسکتا ہے۔ اس سے اجتناب ہر ہوش و حواس رکھنے والے انسان کے لیے ضروری ہے کیونکہ جب ہم نے اسلام کو مضبوطی سے پکڑلیا ہے تو اس نے یہ شرط لگائی ہے کہ ہم آپس میں بھائی بھائی بن جائیں۔ اگر بھائی بھائی نہیں بن سکتے تو پھر اسلام کہاں؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا} (آل عمران:103) ’’تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو یاد کرو، جب تم آپس میں دشمن تھے تو اس نے تمھارے دلوں میں الفت و محبت میں ڈال دیا، پھر اس کی نعمت سے تم بھائی بھائی ہوگئے۔‘‘[1] علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ’’آپ متکلمین کو دیکھیں گے کہ ان میں سے اکثر ایک قول سے دوسرے قول کی طرف بھاگتے رہتے ہیں اور کبھی کسی قول میں یقینی بات بھی کہہ دیتے ہیں اور کبھی دوسرے کے خلاف جنگ بھی کرلیتے ہیں اور اس کے قائل کو کافر قرار دیتے ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خود انھیں تحقیق نہیں ہوتی ہے اور یاد رکھئے ایمان تو وہ ہے جب قیصر نے کہا تھا جب اس نے ابوسفیان سے سوال کیا تھا کہ بتاؤ محمد کے ساتھی ایمان لانے کے بعد واپس بھی چلے جاتے ہیں؟ اس نے کہا: نہیں، قیصر نے کہا: ایمان اسی کا نام ہے جب اس کی حلاوت اور چاشنی دلوں میں گھر کرجاتی تو اس سے کوئی دوسرا کبھی ناراض نہیں ہوتا۔‘‘[2] اسی لیے بعض سلف نے کہا تھا: ’’جس نے دین کو بحث و مباحثہ اور جنگ و جدل کے
[1] ۔ الإنتصار لأہل الحدیث ص 165، 169۔ [2] ۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث صحیح ثابت ہے بخاری وغیرہ میں دیکھ سکتے ہیں۔