کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 24
یعنی یہ کلمہ طیبہ اس کی معنی کی معرفت حاصل کر لینے کے بعد جہنم میں ہمیشہ رہنے سے نجات کا سبب ہے۔ اسے میں اسے لیے دوہراتا ہوں تاکہ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے۔ (یہ کلمہ نجات کا سبب بنے گا) اگر اس کا قائل جس بات کا یہ کلمہ متقاضی ہے انہیں بروئے کار لایا اور جو شرائط ایمان اس سے لازم آتی ہیں اعمال قلبیہ ہوں یا ظاہری اعمال کے انہیں بجا لایا۔[1] اگرچہ اس کا قائل اس کے کمال کے تقاضوں جیسے عمل صالح اور برائیوں سے اجتناب پر کاربند نہ بھی ہو سکا ہو لیکن شرک اکبر سے محفوظ رہا، تو وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کے ارتکاب یا بعض واجبات کی ادائیگی میں کوتاہی کے مشیت کے تحت ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کے ارتکاب یا بعض واجبات کی ادائیگی میں کوتاہی کے سبب جہنم میں داخل ہو، پھر اسے یہ کلمہ طیبہ نجات دلائے یا اللہ تعالیٰ اس سے اپنے فضل وکرم سے درگزر فرما دے۔[2] یہ معنی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا جس کا ذکر پہلے گذر چکا ہے: ((من قال: لا الہ الا اللّٰہ، نفعتہ یوما من دہرہ)) ’’جس نے لاالہ الا اللّٰه کہا، وہ اسے کبھی نہ کبھی ضرور فائدہ پہنچائے گا۔‘‘ البتہ جو محض زبان سے اسے ادا کرے مگر اس کا معنی نہ سمجھتا ہو یا پھر معنی تو سمجھتا ہو مگر اس معنی پر ایمان نہ رکھتا ہو تو ایسے کو اس کا ’’لا الٰہ الا للّٰه ‘‘ کہنا کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ اس نزدیک کی دنیاوی زندگی میں اگر وہ حکومت اسلامی کے تحت جی رہا ہے تو اسے یہ فائدہ پہنچا سکتا ہے لیکن بعد میں آنے والی ہمیشہ کی زندگی میں تو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ اسی لیے ضروری ہے کہ توحید کی جانب دعوت پر توجہ کو مرکوز رکھا جائے خواہ مسلمانوں کا کوئی بھی مجتمع یا گروہ ہو جو حقیقتاً اور جلداز جلد یہ چاہتا ہے جیسا کہ تمام جماعتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ ایسی سر زمین پر جہاں اللہ تعالیٰ کا شرعی نظام قائم نہیں وہاں ایسے اسلامی معاشرے اور اسلامی ریاست کا قیام جہاں اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کے مطابق فیصلے ہوں۔ یہ جماعتیں یا یہ
[1] ۔ جیسا کہ بعض علمائے کرام کا اجتہاد ہے جس کی کچھ تفصیل ہے جس کا یہ موقع محل نہیں۔ [2] ۔ یہی وہ عقیدہ سلف صالحین ہے جو حد فاضل ہے ہمارے اور خوارج ومرجئہ کے درمیان۔