کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 236
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ، صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ، غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ،}[1]
[1] /حرام کردیا۔ طیبات میں سے کچھ بھی ان پر حرام نہیں کیا جس طرح یہود پر کیا تھا۔ ان کے لیے خبائث کو حلال نہیں کیا جس طرح نصاریٰ نے حلال کرلیا تھا۔ طہارت و نجاست کے باب کو ان پر تنگ نہیں کیا جیسا یہود پر تنگ کیا تھا۔ ان سے حدیث اور خبث کی طہارت کو ختم نہیں کیا جیسے نصاریٰ پر ختم کردیا تھا ان کے یہاں خباثت سے پاکیزگی واجب نہیں تھی اور نہ ہی نماز کے لیے وضو اور نہ نماز کے لیے نجاست سے اجتناب ضروری نہیں، بلکہ وہ بہت سی عبادتیں ناپاکی کی حالت میں ادا کرتے ہیں۔ وہ راہب کی فضیلت بیان کرتے ہیں کہ ’’اس نے چالیس سال تک پانی نہیں چھوا‘‘ اسی لیے وہ ختنہ نہیں کرتے ہیں۔ جبکہ یہ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے یہود کے یہاں جب عورت کو حالت حیض میں ہوتی ہے تو اس حالت میں نہ وہ اس کے ساتھ کھانا کھائیں گے اور نہ ہی پانی پئیں گے اور نہ ہی اس کے ساتھ ایک گھر میں بیٹھیں گے۔ نصاریٰ کے یہاں حائضہ عورت سے وطی حرام نہیں۔ یہودی نجاست کو صاف نہیں کرتے بلکہ اگر کپڑے میں لگ جائے تو اس کو قینچی سے کاٹ دیتے ہیں۔ نصاریٰ نے یہاں کوئی ایسی نجس چیز نہیں جس کا کھانا حرام ہو۔ جس کے ساتھ نماز حرام ہو، ان کے برخلاف مسلمان شریعت میں اعتدال پسند ہیں۔ انھوں نے منسوخ شریعت کی وجہ سے ناسخ شریعت کا انکار نہیں کیا جس طرح یہودیوں نے کیا اور نہ ہی کسی شرعی حکم کو بدلا اور نہ ہی کسی ایسی شریعت کا ایجاد کیا جس کا اللہ نے حکم نہ دیا ہو جس طرح نصاریٰ نے کیا۔ نہ ہی انھوں نے نصاریٰ کی طرح انبیاء و صالحین کے بارے میں غلو سے کام لیا اور نہ ہی یہودیوں کی طرح ان کی حق تلفی کی۔ نہ ہی خالق کو مخلوق کی صفت سے متصف کیا اور نہ ہی مخلوق کو خالق کی صفت سے متصف کیا جس طرح نصاریٰ نے کیا۔ انھوں نے اللہ کی عبادت کرنے میں یہود کی طرح تکبر نہیں کیا اور نہ ہی نصاریٰ کی طرح اس کی عبادت میں کسی کو شریک کیا۔ اسلام میں اہل سنت والجماعت کا مقام وہی ہے جیسے دوسری ملتوں میں اہل اسلام، یہ لوگ نہ تو اللہ کی صفات کا انکار کرتے ہیں اور نہ اس کو دوسری مخلوق سے تشبیہ دیتے ہیں۔ وہ لوگ اللہ کی وہ صفت بیان کرتے ہیں جس کو اللہ نے خود اپنے لیے بیان کیا ہے یا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے۔ وہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بھی نہیں کرتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ } اس کے مانند کوئی شے نہیں ہے، ممثلہ کی تردید میں یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْر} اور وہ سمیع و بصیر ہے۔ معطلہ کی رد میں اللہ کا قول: {قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌo اَللّٰہُ الصَّمَدُo لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْo وَلَمْ یَکُنْ لَّہُ کُفُوًا اَحَدٌ } وہ سیّد جو صفت کمال کا مستوجب ہے۔ الأحد: جس کا کوئی شریک و ساجھی نہ ہو۔ اہل سنت اللہ تعالیٰ کے افعال میں بھی اعتدال پسند ہیں وہ معتزلہ کی طرح تقدیر کو جھٹلاتے نہیں اور نہ ہی جیریہ کی طرح اللہ تعالیٰ کی حکمت اس کی رحکمت و عدل کا انکار کرتے ہیں۔ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی اعتدال پسند ہیں نہ تو غلو کرکے ان کو الوہیت یا نبوت کے مقام پر پہنچاتے ہیں اور نہ ہی کسی کی تکفیر یا تفسیق کرتے ہیں۔ یہ لوگ امت کے بہترین لوگ ہیں۔