کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 23
نہ ہو۔ میرے خیال میں اکثر لوگ اس نقطے میں غافل ہیں۔ وہ یہ کہ ایمان کا فہم ہونا کافی نہیں جب تک دونوں امور یکجا نہ ہوں تاکہ وہ مومن کہلائے کیونکہ یہود ونصاریٰ میں سے بہت سے اہل کتاب جانتے تھے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) سچے رسول ہیں اپنی رسالت اور نبوت کے دعوے میں صادق ہیں لیکن اس معرفت کے ہوتے ہوئے کہ جس کی گواہی ہمارے رب تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمائی:
{یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَ ہُمْ} (البقرۃ: 146)
’’وہ اس (نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ایسے ہی جانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کا جانتے ہیں۔‘‘
اس کے باوجود اس معرفت نے انہیں اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی فائدہ نہ پہنچایا، کیوں؟ کیونکہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس رسالت ونبوت کی تصدیق نہ کی جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعویٰ فرماتے تھے۔ اسی لیے معرفت ایمان سے پہلے ہے مگر اکیلی معرفت کافی نہیں بلکہ معرفت کے ساتھ ساتھ ایمان و تسلیم لازم ہے کیونکہ مولا کریم (عزوجل) کا قرآن حکیم میں ارشاد ہے:
{فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا اللّٰہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ …} (محمد: 19)
’’جان لو اور اس بات کا علم حاصل کرو کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود حقیقی نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی طلب کرو۔‘‘
اس بنا پر جب ایک مسلمان اپنی زبان سے ’’لا الٰہ الا اللّٰه ‘‘ کہتا ہے تو اسے چاہیے کہ اس اقرار کے ساتھ اس کلمے کی مختصر پھر تفصیلی معرفت کو بھی شامل کرے۔ جب وہ اسے جان جاتا ہے اور اس کی تصدیق کر کے اس پر ایمان لے آتا ہے تو ایسے شخص پر ہی وہ احادیث صادق آتی ہیں جو ہم نے ابھی بیان کی۔ جن میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے کہ جو میری بیان کردہ بات کی کسی قدر تفصیل کرتا ہے: ((قال: لا الہ الا اللّٰہ، نفعتہ یوما من دہرہہ۔)) [1] ’’جس نے لا الہ الا اللّٰه کہا، وہ اسے کبھی نہ کبھی ضرور فائدہ پہنچائے گا۔‘‘
[1] ۔ حدیث صحیح: صححہ الالبانی فی السلسۃ الصححۃ 1932 وعزاہ لابی سعید الاعرابی فی معجمہ وابی نعیم فی الحلیۃ 46/5 والطبرانی فی الاوسط 6433وہو من حدیث ابی ہریرۃ رضي الله عنه