کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 22
اللّٰہِ زُلْفَی…} (الزمر: 3) ’’جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور اولیاء بنا رکھے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر صرف اسی لیے کہ یہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے قربت اور نزدیکی دلا سکیں۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے ہر عبادت کو جو غیر اللہ کے لیے کی جائے کلمہ طیبہ ’’لا الٰہ الا اللّٰه ‘‘ سے کفر قرار دیا۔ اسی لیے میں آج یہ کہتا ہوں: مسلمان کا اجتماع بنانے اور انہیں جمع کرنے سے مطلقاً کوئی فائدہ نہیں اگر ہم انہیں گمراہی میں ہی پڑا رہنے دیں اور اس کلمہ طیبہ کا صحیح فہم انہیں بیان نہ کریں۔ یہ (جمع کرنا) انہیں اس دنیا تک میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا چہ جائیکہ آخرت میں کوئی فائدہ پہنچا پائے! ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان جانتے ہیں: ((من مات وہو یشہد ان لا الہ الا اللّٰہ مخلصا من قلبہ حرم اللّٰہ بدنہ علی النار)) ’’جو فوت ہوا اس حال میں کہ وہ لا الہ الا اللّٰه کی گواہی دیتا تھا اپنے دل کے اخلاص کے ساتھ تو اللہ تعالیٰ نے اس کے بدن کو جہنم کی آگ پر حرام قرار دیا ہے) اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ ((دخل الجنۃ))[1] ’’جنت میں داخل میں ہوگا۔‘‘ پس جنت میں دخول کی ضمانت دینا ممکن ہے چاہے اس کے کہنے والے کو جہنم میں کسی بھی قسم کا عذاب ملنے کے بعد ہی کیوں نہ ہو۔ جو کوئی اس کلمے کا صحیح اعقاد رکھتا ہے ہو سکتا ہے کہ وہ عذاب سے دو چار ہو اپنے ان گناہوں کی پاداش میں جن کا وہ مرتکب ہوا۔ مگر اس کا آخری ٹھکانہ تو جنت ہی ہے۔ اس کے برعکس جس نے زبان سے تو اس کلمے کو ادا کیا مگر دل سے صحیح ایمان نہ رکھتا تھا تو اسے یہ آخرت میں کوئی بھی نفع نہ پہنچا سکے گا، ہاں البتہ دنیا میں کچھ فائدہ پہنچا دے جیسا کہ اگر مسلمانوں کی قوت وسلطنت ہو تو اس سے قتال یا اس کا قتل نہیں کیا جائے گا لیکن آخرت میں وہ اسے کچھ بھی فائدہ نہ پہنچا سکے گا الایہ کہ اس نے اولاً اس کے معنی سمجھ کر پڑھا ہو اور ثانیاً اس معنی کا اعتقاد بھی رکھتا ہو کیونکہ صرف فہم کا ہونا کافی نہیں جب تک کہ اس فہم کا اعتقاد بھی ساتھ
[1] ۔ حدیث صحیح: رواہ احمد:236/5وان حبان4 زوائد، وصححہ الالبانی فی الصحیحۃ3355۔