کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 217
کیوں نہ ہو، کیونکہ تم میں سے جو شخص زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا اور سنو تم لوگ نئے نئے امور سے بچتے رہو، کیونکہ یہ گمراہی ہے اور تم میں سے جو شخص اس کو پالے تو اس کو میری سنت اور خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنی چاہیے اس کو دانتوں سے مضبوطی سے پکڑے رہنا چاہیے۔‘‘
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت ہے، اس میں آپ نے مندرجہ ذیل امور پر اختصار کیا ہے:
(1)… اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنا کیونکہ تقویٰ تمام بھلائی کی اصل ہے۔
(2)… حاکم وقت کی اطاعت کرنا اگرچہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ اسی میں دنیا اور مسلم معاشرے کی بھلائی ہے اور اختلاف کے موقع پر تقویٰ کی وصیت، حاکم وقت کی سمع و طاعت، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کی سنت کی طرف رجوع، یہ فتنہ و فساد دفع کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اسی میں اصلاح مضمر ہے۔ آپ دوبارہ حدیث میں غور کریں تو محسوس کریں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جملہ اسمیہ استعمال کیا ہے نہ کہ جملہ فعلیہ۔ مثلاً: آپ نے یہ نہیں کہا: ((اوصیکم بان تتقوا اللہ، وان تسمعوا تطیعوا لامیر ولو تامر علیکم عبد حبشی)) بلکہ آپ نے ((اوصیکم بتقوی اللّٰه والسمع والطاعۃ)) استعمال کیا ہے جو جملہ اسمیہ ہے تاکہ یہ دوام و ثبوت اور استقرار پر دلالت کرے بخلاف جملہ فعلیہ کے، کیونکہ یہ حدوث فعل پر دلالت کرتا ہے۔ نیز حدیث میں مسلمان سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ اس صفت کو لازم پکڑیں، تاکہ وہ دائم و ثابت رہے اور یہ تقویٰ اور امیر کی سمع و طاعت اور اس سے عدم خروج کے لیے لازم ہے اور جب حالت یہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ جماعت ضروری ہے۔ تمیم داری سے روایت ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ تعمیر مکان میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے لگے تو اس وقت عمر نے کہا: اے عرب کی جماعتو! زمین کو لازم پکڑو، کیونکہ نہیں ہے اسلام مگر جماعت کے ساتھ اور نہیں ہے جماعت مگر امارت کے ساتھ اور نہیں ہے امارت مگر طاعت کے ساتھ، پس جس کو