کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 211
جائے مگر سمع وطاعت کو کبھی نہ چھوڑنا۔
خالد بن خالد یشکری کہتے ہیں: تستر کے فتح کے وقت میں وہاں سے نکل کر کوفہ آگیا تھا۔ وہاں ایک مسجد میں داخل ہوا، پھر میں ایک حلقہ میں شامل ہوگیا۔ اس میں ایک اچھے شکل و صورت والے شخص کو دیکھا، وہ حجاز کا لگ رہا تھا۔ میں نے پوچھا: یہ کون شخص ہیں؟ لوگوں نے کہا: تم ان کو نہیں جانتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں، میں نہیں جانتا ہوں۔ لوگوں نے بتایا: یہی حذیفہ بن یمان صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، پھر میں بیٹھ گیا۔ وہ لوگوں سے بیان کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھلائی کے بارے میں سوال کرتے تھے اور میں آپ سے برائیوں کے بارے میں سوال کرتا تھا۔ یہ سن کر قوم نے ان پر نکیر کی تو انھوں نے کہا: میں عنقریب تمھیں بتاؤں گا جس کا تم انکار کر رہے ہو۔ جس وقت اسلام آیا تو ایسا امر لایا جو زمانۂ جاہلیت سے بالکل مختلف تھا اور مجھے قرآن حکیم میں فہم عطا کیا گیا۔ لوگ آتے اور بھلائی کے بارے میں سوال کرتے اور میں آپ سے برائی کے بارے میں سوال کرتا۔ سب نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا اس بھلائی کے بعد بھی کوئی برائی ہے، جیسا کہ اس سے پہلے برائی تھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس سے بچنے کا راستہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تلوار، میں نے عرض کیا: کیا اس تلوار کے بعد بھی کچھ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، ناپسندیدہ امارت ہوگی اور مصالحت ہوگی لیکن دلوں میں کینہ کپٹ موجود رہے گا۔ میں نے عرض کیا: پھر اس کے بعد کیا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر ضلالت و گمراہی کی طرف دعوت دینے والے پیدا ہوں گے تو اگر اس وقت اللہ کے لیے زمین میں کوئی خلیفہ ہو وہ تمھیں کوڑے لگائے، تمھارے مال پر قبضہ کرلے تب بھی اس کو لازم پکڑے رہو۔ ورنہ موت کو ترجیح دو اس حال میں کہ تم درخت کے جڑ کو مضبوطی سے پکڑے رہو۔ میں نے کہا: پھر کیا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے بعد دجال نکلے گا اس کے ساتھ آگ اور نہر ہوگی۔ جو اس کی آگ میں گرگیا اس کا اجر واجب ہوگیا اور اس کا گناہ بھی مٹا دیا گیا اور جو اس کی نہر میں گرا تو اس کا اجر ختم ہوگیا اور اس کا گناہ واجب ہوگیا۔ میں