کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 209
’’لاطاعۃ لولی الأمر إذا امر بمعصیۃ اللہ‘‘ یعنی حاکم وقت کی اس وقت اطاعت نہیں ہے جب وہ اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں لیکن اگر وہ کسی حرام کام کرنے کا حکم دیں تو اس وقت ان کی نافرمانی واجب ہے بلکہ اللہ کا حکم اور اس کی اطاعت واجب ہے۔
نجات ملے تو کیا ہم اس میں داخل ہوجائیں؟ وہ آپس میں ایسے ہی باتیں کر رہے تھے کہ اتنے میں آگ ٹھنڈی ہوگئی اور ان کا غصہ بھی کم ہوگیا۔ جب اس واقعہ کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’لو دخلوہا ما خرجوا منہا ابدا، إنما الطاعۃ فی المعروف‘‘ اگر لوگ اس میں داخل ہوجاتے تو اس سے کبھی نجات نہ پاتے اور یاد رکھو کہ اطاعت معروف میں ہے۔‘‘
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((السمع والطاعۃ حق، مالم یؤمر بالمعصیۃ، فإذا امر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ۔))[1]
’’سمع اور طاعت حق ہے جب تک معصیت کا حکم نہ دیا جائے لیکن جب معصیت کا حکم ہو تو ایسی صورت میں سمع و طاعت نہیں ہے۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاکم وقت کی اطاعت کی بڑی اہمیت بتائی ہے، بلکہ اسے سلامتی کا راستہ قرار دیا ہے۔ بسر بن عبید اللہ حضرمی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوادریس خولانی نے بیان کیا، انھوں نے حذیفہ بن یمان سے سنا وہ کہتے تھے کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھلائی کے بارے میں سوال کرتے تھے اور میں آپ سے برائی کے بارے میں سوال کرتا تھا تاکہ اس کی نشاندہی ہوجائے اور اس میں واقع ہونے سے بچ سکوں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم دور جاہلیت اور شر میں تھے کہ رب العالمین نے ہم کو بھلائی سے نوازا، اب آپ فرمائیں کہ کیا اس بھلائی کے بعد بھی کوئی شر ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، میں نے عرض کیا: کیا اس شر کے بعد بھی کوئی بھلائی ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اور اس میں ’’دخن‘‘ ہوگا۔ میں نے سوال کیا: دخن کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک قوم ہوگی (اس کی صفت یہ ہوگی کہ) وہ میری ہدایت و رہنمائی کو چھوڑ کر دوسرے راستے کی طرف دعوت دے
[1] ۔ صحیح بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب السمع والطاعۃ للإمام (2955)، صحیح مسلم، کتاب الإمارۃ، باب وجوب طاعۃ الإمام فی غیر معصیۃ الخ… (1839)۔