کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 208
نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا،} (النسائ:59) ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور حاکم وقت کی بھی بات مانو اگر وہ تم میں سے ہو، پھر اگر کسی معاملے میں تنازع ہوجائے تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو اور اگر تم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو یہ سب سے بہتر اور اچھی تاویل ہے۔‘‘ اس آیت میں اس بات پر واضح دلیل ہے کہ حاکم وقت کی اس وقت تک اطاعت ضروری ہے جب تک وہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کا حکم نہ دیں، علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قافلہ بھیجا۔ ایک انصاری شخص کو اس کا امیر بنادیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ ان کی بات مانیں تو وہ امیر لوگوں پر غصہ ہوگئے اور کہنے لگے: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم لوگوں کو اس بات کا حکم نہیں دیا تھا کہ تم لوگ میری بات مانو؟ لوگوں نے جواب دیا: کیوں نہیں، امیر صاحب نے کہا کہ میں نے تم کو حکم دیا تھا کہ تم لکڑیاں جمع کرو اور ان کو بھڑکادو، پھر تم سب کے سب اس میں داخل ہوجاؤ۔ لوگوں نے ایسا ہی کیا کہ لکڑیاں جمع کیں اور اس کو بھڑکادیا، پھر جب اس میں داخل ہونا چاہا تو ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ان میں سے ایک نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اس لیے کی ہے تاکہ آگ سے