کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 203
جان لیجیے کہ ہماری دلیل کسی عالم یا مفتی کا قول نہیں ہوگا۔ بلکہ ہم سب کے نبی جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال مبارک ہوں گے۔ اب دلیل ملاحظہ فرمائیے:
عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
((وَعَظَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم یَوْمًا -بَعْدَ صَلَاۃِ الْغَدَاۃِ- مَوْعِظَۃً بَلِیْغَۃً ذَرَفَتْ مِنْہَا الْعُیُوْنُ، وَوَجِلَتْ مِنْہَا الْقُلُوْبُ، فَقَالَ رَجُلٌ: إِنَّ ہَذِہِ مَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْہَدُ إِلَیْنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: أُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَیٰ اللّٰہِ، وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَۃِ وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ، فَإِنَّہُ مَنْ یَعِشْ مِنْکُمْ یَرَیٰ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا۔ وَإِیَّاکُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُوْرِ فَإِنَّہَا ضَلَالَۃٗ، فَمَنْ أَدْرَکَ ذَلِکَ مِنْکُمْ فَعَلَیْہِ بِسُنَّتِي، وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ عَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ۔)) [1]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صبح کی نماز کے بعد ہم لوگوں کو بڑے فصیح و بلیغ انداز میں نصیحت کی، آنکھیں اشک بار ہوگئیں، دل دہل گئے اور خوفزدہ ہوگئے، یہاں تک کہ ایک صحابی پریشان ہوکر اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ آخری نصیحت تو نہیں ہے؟ لہٰذا آپ ہمیں کس چیز کا حکم دیتے ہیں؟ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أُوْصِیْکُمْ بِتَقْوَیٰ اللّٰہِ… عَضُّوْا عَلَیْہَا بِالنَّوَاجِذِ۔)) میں تمھیں تقویٰ اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں اور سمع و طاعت اختیار کرنے کی، اگرچہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ تم میں سے جو شخص زندہ رہے گا وہ بہت اختلافات دیکھے گا، اور یاد رکھو نئے نئے امور سے بچتے رہو، کیونکہ یہ ضلالت و گمراہی ہیں، اب اگر تم میں سے کوئی شخص اس کو پالے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اس موقع پر میری سنت کو
[1] ۔ اس کی تخریج پہلے گزر چکی ہے۔