کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 200
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی صحیح اتباع اور پیروی حاصل ہوتی ہے یا صحابہ کرام کے راستے پر چلنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے، کیونکہ انھوں نے کلی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی تھی اور مضبوط طریقے سے سنت نبوی پر عمل پیرا تھے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ سلف صالحین کی طرف نسبت کرکے ’’سلفی‘‘ کہنا اہل علم سے ثابت ہے، اور ’’سلفیہ‘‘ وہی راستہ ہے جس پر اہل حدیث ہیں اور یہی اہل حدیث اہل سنت و الجماعت بھی ہیں۔ ان کو کبھی اہل حدیث، اہل سنت و الجماعت، کبھی سلفی اور سلف کے پیروکار کہہ کر پکارا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَسَآئَ تْ مَصِیْرًا،} (النسائ:115)
’’جو شخص اس کے سامنے ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول کی مخالفت کرتا ہے اور مومنوں کے راستے کو چھوڑ کر غیر کی پیروی کرتا ہے تو ہم اس کو اسی کا والی بنا دیں گے اور اس کو جہنم میں داخل کردیں گے اور جہنم بہت برا ٹھکانا ہے۔‘‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت میں مومنوں کے راستے سے کیا مراد ہے؟ تو اس کا آسان سا جواب یہی ہے کہ اس سے وہ راستہ مراد ہے جس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گامزن تھے۔ اب اس راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستوں کو اختیار کرنا یہی غیر مومنوں کا راستہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((علیکم بسنتي، وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین من بعدي۔))[1]
[1] ۔ مسند احمد: 4/126، 127، دارمی نے مقدمہ باب اتباع السنۃ میں، ترمذی نے کتاب العلم باب ما جاء فی الآخذ بالسنۃ واجتناب البدع میں نمبرحدیث: 2676، ابوداؤد نے کتاب السنہ، باب لزوم السنۃ حدیث:4607 میں، ابن ماجہ نے مقدمہ باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین میں حدیث نمبر: 42، 45اور امام ترمذی نے اس حدیث کے بارے میں کہا یہ حدیث حسن ہے صحیح ہے۔ علامہ البانیؒ نے ارواء الغلیل 8/107 میں نقل کرکے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔، حدیث: نمبر 2455ہے۔