کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 20
{وَ لَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ} (لقمان: 25) ’’اور (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کا خالق کون ہے تو وہ ضرور بالضرور کہیں گے کہ: اللہ (ہی ان کا خالق ہے)۔‘‘ پس مشرکین اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے جس کا کوئی شریک نہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اس کے برابر والے اور شریک مقرر کرتے تھے۔ وہ اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ رب واحد ہے مگر معبودات بہت سے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اس عقیدہ کا رد فرمایا اور اپنے اس فرمان سے اسے اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کی عبادت کرنا قرار دیا۔ {وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَآئَ مَا نَعْبُدُہُمْ اِِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِِلَی اللّٰہِ زُلْفَی…} (الزمر: 3) ’’جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور اولیاء بنا رکھے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر صرف اسی لیے کہ یہ ہمیں اللہ تعالیٰ سے قربت اور نزدیکی دلا سکیں۔‘‘ مشرکین یہ بات جانتے تھے کہ ’’لا الٰہ الا اللّٰه ‘‘ کا اقرار اس بات کا متقاضی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر ایک کی عبادت کو چھوڑنا ہوگا۔ جبکہ آج مسلمانوں کی غالب اکثریت اس کلمہ طیبہ ’’لا الٰہ الا اللّٰه ‘‘ (اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں) کی تفسیر ’’لا الا رب‘‘ (اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں) کرتی ہے اگر کوئی مسلمان ’’لا الٰہ الا اللّٰه ‘‘ کہے مگر وہ اللہ تعالیف کے ساتھ کسی اور کی بھی عبادت کرے تو وہ عقیدۃً مشرک ہی ہے اگرچہ ظاہری اعتبار سے وہ مسلمان ہے کیونکہ اس نے کلمے ’’لا الٰہ الا اللّٰه ‘‘ کو زبان سے پڑھا ہے تو وہ اس زبانی اقرار کس سبب لفظی اعتبار سے ظاہراً مسلمان ہے۔ اسی وجہ سے ہم پر داعیان اسلام ہونے کے ناطے سے توحید کی جانب دعوت اور جو ’’لا الٰہ الا اللّٰه ‘‘ کے معنی سے جاہل ہے اور اس کی عملی مخالف کرتا ہے اس پر