کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 195
((أرجوا ان اکون أنا ہو))[1] ’’کہ میں اس میں ہوں گا۔‘‘ اس طرح ضلالت و گمراہی والی بات کون کرے گا ظاہر بات ہے کہ جس کی عقل پر پردہ پڑگیا ہو اور وہ حق و ناحق میں کچھ بھی تمیز نہ کرسکتا ہو، جب ان لوگوں سے دلیل مانگی جاتی ہے کہ تم نے اتنی بڑی بات کس بنیاد پر کہی ہے تو وہ یہ جواب دیتے ہیں کہ قرآن میں آیت کریمہ مطلق ہے یعنی {فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ}یہ مطلق ہے اس کے اطلاق سے یہ معنی پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے پاس عدل نہیں ہے حاشا اللہ۔ کیا اللہ تعالیٰ کوئی کام بغیر حکمت کے کرے گا۔ حاشا للّٰہ۔ تعالیٰ اللّٰہ عمَّا یقولونہ۔ اہل سنت کا طریقہ استدلال: اہل سنت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کسی ایک نص کو بنیاد بنا کر کسی مسئلہ پر حکم نہیں لگاتے ہیں بلکہ اس مسئلہ میں مختلف نصوص کو جمع کرتے ہیں پھر کوئی نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور ہم بھی یہی بات ہمیشہ کہتے رہتے ہیں۔ ’’ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ ‘‘ اس نص سے اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ اس کے درمیان اور اس کے عمل کے درمیان کوئی حائل نہیں ہوسکتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ حکیم نہیں ہے، وہ عادل نہیں ہے۔ اگر وہ ذات باری عدل نہیں کرے گا تو کون کرے گا؟ اللہ تعالیٰ تو خود فرماتا ہے: {اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ، مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ} ’’کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں کے مانند کردیں گے تمہیں کیا ہوگیا ہے تم لوگ کیسے حکم لگاتے ہو۔‘‘ دنیا میں ظالم و جابر بادشاہوں کی حالت تو یہ ہے کہ اچھے اور صالح آدمی کو بالکل غرق کردیتے ہیں اور اگر کوئی نوکری دیتے ہیں تو بہت معمولی قسم کی جس سے خود کا گزر اوقات بہت مشکل ہے اہل و عیال کی تو دور کی بات اسی طرح فاسق و فاجر، چور، ڈاکو وغیرہ کو اعلیٰ سے اعلیٰ نوکریاں اونچی سے اونچی تنخواہوں کے ساتھ دیتے ہیں یہ دنیاوی بادشاہوں کی حالت
[1] ۔ صحیح مسلم:1/288۔