کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 194
مومن صادق اور مومن کاذب کے درمیان صحیح فیصلہ کرے گا۔ جب اللہ نے اپنے حکیم ہونے کی صفت بیان کی ہے تو ہمیں اس پر ایمان لانا ضروری ہے چاہے ہم اس کی حکمت سمجھ سکیں یا نہیں یا اس کی حکمت ہمارے سامنے ظاہر ہو یا نہ ہو۔ چونکہ اشاعرہ اللہ تعالیٰ کے بعض تصرفات کے ادراک میں عاجز ہوگئے ہیں اس لیے وہ نص قرآنی سے منحرف ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْد} اور {لَا یُسْاَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَہُمْ لَا یَسْاَلُوْن} اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اس کے بارے میں سوال نہ کیا جائے کیونکہ وہ وہ کام انجام دیتا ہے جس کے اندر کوئی حکمت نہیں۔ {فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْد} کا مطلب ہے کہ وہ زمین کے ظالم و جابر حاکموں کے مانند اپنے جبروت کی حدود میں تصرف کرتا ہے وہ کسی عدل و انصاف کے ساتھ مقید نہیں ہے اور نہ ہی کسی حکمت کے ساتھ وہ {لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ} کہتے ہیں لیکن اس میں بھی غلو سے کام لیتے ہیں حتیٰ کہ قرآن و حدیث میں موجود بہت سی صفات کا انکار کردیتے ہیں اس کے باوجود ان کی تاویلیں کرتے رہتے ہیں، کیوں؟ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس سے اللہ تعالیٰ کو منزہ کرتے ہیں۔ پھر یہ لوگ ان سب کو بھلا کر اللہ تعالیٰ کی وہ صفت بیان کرتے ہیں جو دنیاوی ظالم و جابر بادشاہوں کی ہوئی ہے یعنی وہ بغیر عدل و حکمت کے جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ تعالیٰ اللّٰہ عما یقولون۔ اشاعرہ کے تناقضات: جو شخص بھی فہم سلف اور منہج سلف سے روگردانی کرے گا اور کتاب و سنت کی واضح تعلیمات میں اپنی عقلی موشگافیوں سے گل کھلانا شروع کرے گا تو یقینا گمراہی کے عمیق غار میں جاگرے گا۔ یہی حال اشاعرہ کا ہوا کہ انہوں نے کھل کر اپنی مشہور کتاب ’’الجوھرۃ‘‘ میں یہ کہہ دیا کہ ’’اللہ تعالیٰ فرمانبرداروں کو عذاب دے سکتا ہے اور نافرمانوں کو ثواب، اس کی شرح بعض اشاعرہ نے یہ کی ہے…تعالی اللّٰه عما یقول الظالمون علوًا کبیرا… کہ اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جہنم کے نچلے طبقہ میں ڈال سکتا ہے اور مردود ابلیس کو اس مقام میں پہنچا سکتا ہے جس مقام اعلیٰ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: