کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 193
کہتے کہ وہ لوگ اللہ کے بارے میں خالق اور مدبر ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے تو کوئی بات نہیں تھی لیکن انہوں نے کہا کہ ان کا اللہ کے ’’حکیم‘‘ ہونے پر بھی یقین تھا یہ محل نظر ہے میں اس کو نہیں مانتا۔ کیونکہ کفار مکہ اللہ کو ’’حکیم‘‘ نہیں مانتے تھے۔ افسوس تو یہ ہے کہ جمہور مسلمانوں کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ میں اسی پر آپ لوگوں کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں۔ پھر اس صفت کے بارے میں بعض اسلامی جماعتیں بھی شک میں پڑگئی ہیں۔ آپ اشاعرہ کی کتابیں اٹھا کردیکھیں کہ یہ لوگ کس طرح اس صفت کی تاویل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’حکیم‘‘ حکم سے ہے ’’حکمۃ‘‘ سے نہیں اور حکیم ہے فعیل کے وزن پر جو بمعنی فاعل ہوتا ہے یعنی وہ حاکم ہے۔[1] وہ حاکم اس معنی کرکے نہیں ہے کہ وہ اشیاء کو بناتا ہے پھر اس میں اس کی حکمت بھی شامل ہوتی ہے جب اشاعرہ کے نزدیک اس صفت کا یہ معنی ہے تو گویا کہ وہ اس کا انکار کرتے ہیں۔ ان کی کتابیں اس قسم کی باتوں سے بھری ہیں۔ ان سے جب سوال ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو عذاب دینے یا تکلیف دینے میں کیا حکمت ہے؟ اسی طرح جانوروں کو عذاب دینے میں کیا حکمت ہے؟
درحقیقت ایک پختہ مومن جو اللہ تعالیٰ کی حکمت پر ایمان رکھتا ہے۔ وہ یہی کہتا ہے کہ اللہ کی حکمت کا مجھے علم نہیں ہے۔ اگرچہ بعض علماء توحید اس کی حکمت بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن میرا اعتقاد و یقین یہی ہے کہ ہر مسلمان اللہ تعالیٰ کے تصرفات میں اس کی حکمتوں کو نہیں تلاش کرسکے گا لہٰذا نتیجہ یہی نکلا کہ اس پر ایمان رکھا جائے گا جیسا کہ مومن کی صفت ہے کہ وہ غیب پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ نمازیں قائم کرتے ہیں۔ اب غیب پر ایمان ہی
[1] ۔ علامہ ھراس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ’’الحکیم‘‘ بھی ہے۔ وہ یا تو فعیل بمعنی فاعل ہے یعنی ’’ذوالحکم‘‘ یعنی حکم والا یعنی وہی ذات اشیاء پر حکم لگاتی ہے یا فعیل بمعنی مفعل ہے یعنی جو اشیاء کو محکم اور مضبوط بناتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’الحکیم‘‘ ذوالحکمۃ کے معنی میں ہے۔ قرآن مجید میں ’’الحکیم‘‘ اور ’’الحکم‘‘ دونوں بکثرت موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے حکمت والا ہے اور ایسا حاکم ہے جو اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ تعالی اللّٰہ عما یقولون من التعطیل والتاویل۔