کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 192
کیا، نیز اس میں پائی جانے والی دونوں علّتوں کا بھی ذکر نہیں کیا دوسری بات یہ ہے کہ یہ حدیث عقیدۂ توحید کے سخت خلاف ہے کیونکہ اس میں مخلوق سے واسطہ کا ذکر ہے اس قسم کی حدیث کا نہ صرف علامہ ابن تیمیہ ہی مخالفت کرتے ہیں بلکہ ہر وہ سلفی منہج و فکر کا شخص مخالفت کرے گا جس کے پاس ذرا بھی بصارت و بصیرت ہوگی کیونکہ اس میں صراحتاً مخلوق سے واسطہ لے کر دعا کرنے کا ذکر ہے جو کہ عقیدہ و منہج کے سراسر خلاف ہے[1] اگر حدیث صحیح ہوتی تو اس کی کچھ تاویل بھی کی جاسکتی تھی جیسا کہ میں نے اپنی بعض کتابوں میں اس کا تذکرہ کیا ہے لیکن یہ حدیث ضعیف بھی ہے اور عقیدہ کے مخالف بھی ہے پھر اس کو مسجد کے آداب میں ذکر کیا گیا ہے کہ جب آدمی اپنے گھر سے نکلے تو اس طرح کی دعا پڑھے۔
یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب میں بہت فرق ہے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی ہر دعوت، اور دعوت کے ہر گوشے میں سلفی تھے۔ جبکہ محمد عبد الوہاب رحمہ اللہ میں یہ بات نہیں تھی۔ میرا مقصد صرف اس بات کی طرف متنبہ کرنا تھا اور ہر صاحب حق کو اس کا جائز حق دینا تھا۔ الحمد للہ شیخ محمد عبد الوہاب کا میرے دل میں بہت احترام ہے اور علامہ ابن تیمیہ کے بعد وہی شخص ہیں جنہوں نے صدائے توحید بلند کیا اور اس راہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں کی۔
شیخ عبد عباسی کے کلام پر ایک تنبیہ:
شیخ عبد عباسی نے اپنے خطاب میں بیان کیا کہ عام لوگ حتیٰ کہ کفارِ مکہ توحید ربوبیت پر یقین رکھتے تھے یہ بات بالکل درست ہے لیکن دوران کلام انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ لوگ اس بات پر بھی یقین رکھتے تھے کہ اللہ خالق ہے، مدبر اور حکیم بھی ہے۔ یہاں میں یہ واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اس بارے میں میرا نقطہ نظر کچھ اور ہے۔ اگر وہ اپنے بیان میں صرف اتنا
[1] ۔ حقیقت یہ ہے کہ شیخ پر یہاں کوئی جرح مقصود نہیں ہے کیونکہ کسی بھی عالم سے خطا واقع ہوسکتی ہے۔ ممکن ہے کہ شیخ نے دوسروں کے اس حدیث کی تحسین کرنے کی وجہ سے دھوکہ میں واقع ہوگئے ہوں پھر بھی عقیدہ ہو یا احکام دونوں میں ضعیف احادیث سے اجتناب کرنا چاہیے، صحیح حدیثیں کافی ہیں۔