کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 191
پر شرعی احکام کی بناء رکھی جائے۔ اس کے برعکس شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب کی دعوت میں یہ بات بالکل نہیں تھی۔ ان کی توجہ نہ تو حدیث پر تھی اور نہ ہی سلفی فقہ پر بلکہ وہ بھی مذہب کے اعتبار سے حنبلی تھے اور حدیث میں انھیں وہی مقام حاصل تھا جو ان کے غیر کو ہے۔ ان کا کوئی فقہی اثر بھی ایسا نہیں ہے جو اس بات میں ہماری رہنمائی کرے کہ وہ فقہی مسائل میں بھی علامہ ابن تیمیہ کی طرح سلفی منہج پر قائم تھے۔[1] غالباً ان کے سامنے کوئی عذر رہا ہوگا جس کی بناء پر انہوں نے ایسا کیا ہوگا جیسا کہ ابھی میں نے اشارہ کیا ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ حدیث کے معاملے میں وہ بھی دوسروں کی مانند تھے صحیح اور ضعیف کی معرفت ان کو زیادہ نہیں تھی۔ اس کی دلیل ان کی وہ کتاب ہے جو آج تک لوگوں میں عام ہے اس کا نام ہے ’’آداب المشی إلی المسجد‘‘ اس کے شروع میں ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی وہ روایت مذکور ہے جو بے حد ضعیف ہے۔ اس روایت کو ابن ماجہ نے اپنی سنن میں بھی ذکر کیا ہے۔ اس کی سند اس طرح ہے: ((فضیل بن مرزوق، عن عطیۃ العوفی والسعدی ایضًا)) لیکن وہ عوفی سے زیادہ مشہور ہے‘‘ عن ابی سعید الخدری۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے مسجد کی طرف نکلے اور کہا: ((اللہم إنی أسألک بحق السائلین علیک وبحق ممشای ہذا[2]…الخ
شیخ نے اپنی کتاب میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے لیکن اس کی ضعف کی طرف اشارہ نہیں
[1] ۔ جیسا کہ بتایا جاتا ہے کہ حدیث میں کتاب المحرر لابن عبد الہادی کی مختصر پائی جاتی ہے۔ شیخ محمد طحان نے اس کی طرف اشارہ کیا تھا۔ لیکن شیخ کی طرف سے یہ کوئی تعصب کی بنیاد پر نہیں تھا۔ بلکہ ان کی زیادہ توجہ اس وقت کے رائج شرک و بدعات پر تھی اور اس میں واضح طور پر سلفی عقیدہ کی مدافعت کی اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے۔ اسی لیے وہ مسائل پر زیادہ توجہ نہ دے سکے۔ لیکن علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی دعوت کامل اور شامل تھی۔ وہ عقیدہ و احکام سب کو شامل تھی۔
[2] ۔ مسند احمد:3/21، ابن ماجہ: (228) ابن خزیمہ نے التوحید:1/46، الطبرانی نے الدعاء:(421) مذورہ سند سے۔ لیکن اس کی سند میں ’’عطیہ العوفی‘‘ سخت ضعیف بلکہ صاحب مناکیر ہے۔ خاص طور سے جب وہ ابوسعید سے روایت کرتا ہے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس نے ابوسعید کلبی سے روایت کیا ہے تو یہ متکلم فیہ شخص ہے۔ اس پر تفصیلی بحث کتاب ’’ھدم المنارۃ‘‘ ص:140 میں موجود ہے۔