کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 190
عبد الوہاب رحمہ اللہ کو ہی یہ مقام حاصل ہے اور غالباً ہر قسم کی شرک و بدعت، اوھام و خرافات اور بت پرستی کی غلاظت سے پاک و صاف توحید خالص پر توجہ دینے ہی کی وجہ سے سلفی دعوت پر مکمل توجہ نہیں دے سکے۔ کیونکہ خالص عقیدۂ توحید کے ساتھ ساتھ خالص اتباع نبی بھی ضروری ہے لیکن ان کے زمانہ میں، ان سے پہلے اور ان کے بعد بھی لوگوں نے مذہب ہی کو دین بنا رکھا تھا۔ تقلیدی جکڑ بندیوں میں لوگ گھرے ہوئے تھے۔[1]
واضح رہے کہ جس نے تقلید کو ترک کیا وہ ہر قسم کے انحرافات سے محفوظ رہا۔ یہی وہ باتیں تھیں جن کی طرف استاذ عبدد عباسی نے اپنے کلمات میں اشارہ کیا ہے۔ چونکہ شیخ الاسلام کی دعوت توحید تک محدود تھی اس لیے یہ دعوت شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی دعوت سے بہت مختلف تھی۔ کیونکہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے صرف توحید ہی کی دعوت نہیں دی تھی بلکہ انہوں نے عام اسلام کی دعوت کو کتاب و سنت کی روشنی میں پیش کیا تھا۔ انہوں نے سختی سے احادیث ضعیفہ استعمال کرنے سے روکا اور اس بات سے بھی روکا کہ ضعیف احادیث
[1] ۔ یہاں شیخ رحمہ اللہ اس وقت کے تقلیدی ماحول کی طرف اشارہ کررہے ہیں بلکہ یہ ماحول آج بھی قائم ہے کہ لوگ احکام میں آج بھی حنبلی مذہب پر قائم ہیں۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ میں نے ’’حنبلی مذہب‘‘ کہا ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کا مذہب نہیں کہا ہے۔ کیونکہ دونوں میں بہت فرق ہے۔ آج کل بالعموم متاخرین حنابلہ کی تالیفات پر اعتماد کیا جاتا ہے جبکہ ان میں امام احمد رحمہ اللہ کے بہت سے اقوال و اجتہادات کی مخالفت پائی جاتی ہے۔ بلکہ بعض کتابوں میں اصحاب مذہب کے اقوال بھرے ہوئے ہیں ان میں کتاب و سنت سے کہیں کوئی دلیل نہیں ملتی ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ شیخ عبد الرزاق عفیفی رحمہ اللہ کو جب شیخ ابراہیم نے مردروی کی کتاب ’’الإنصاف‘‘ پڑھنے کے لیے دی تو شیخ عبد الرزاق کا بیان ہے کہ میں نے پوری کتاب کا مطالعہ کیا لیکن شروع سے آخر تک صرف تین بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر پایا۔ (دیکھو: فتاویٰ اور مسائل الشیخ عبد الرزاق عفیفی 1/55،56) بلکہ بعض ائمہ مذہب کے نزدیک تقلید اتنی عام ہوگئی تھی کہ اس کی وجہ سے وہ مسائل اعتقاد میں لغزش کھاگئے۔ جیسے قاضی ابویعلی اور ابن قدامہ اگرچہ بعض نے ان کی جانب سے معذرت بھی کی ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سلفی دعوت سے مراد مکمل اسلام ہے جس میں عقیدہ و احکام دونوں شامل ہیں اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دونوں لے کر مبعوث ہوئے تھے پھر ایک کو لے کر دوسرے کو چھوڑ دینا یا اس کو ثانوی مقام دینا صحیح نہیں ہے۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ شیخ البانی شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہاب کی تنقیص کر رہے ہیں بلکہ مقصود ان کا منہج بیان کرنا ہے تاکہ بعد کے لوگ بالخصوص طلبا اور اہل علم اس حقیقت کو سمجھیں اور اس سے استفادہ کریں۔