کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 19
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس بات کی طرف دعوت دی کہ وہ ’’لا الٰہ الا اللٰه ‘‘ کہیں تو وہ تکبر کرتے تھے جیسا کہ قرآن کریم میں صریحا بیان ہوا۔[1] وہ کیوں تکبر کرتے تھے؟ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اس کلمے کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو برابر والا نہ بناؤ اور نہ ہی اس کے سوا کسی کی عبادت کرو جبکہ وہ اس کے سوا اوروں کی بھی عبادت کرتے تھے۔ پس وہ غیر اللہ کی نذر ونیاز، غیر اللہ سے توسل، غیر اللہ کے لیے ذبح اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے سوا دوسرے احکام پر چلتے یہاں تک کہ وہ غیر اللہ سے استغاثہ (فریاد) کرتے تھے۔
یہ وہ مشہور شرکیہ اور وثنیہ (بت پرستی، قبر پرستی) وغیرہ کے وسائل ہیں جن میں وہ مبتلا تھے، اس کے باوجود وہ اس کلمہ طیبہ ’’لا الٰہ الا اللٰه ‘‘ کے لوازم کو عربی لغت کے اعتبار سے جانتے تھے۔ کہ ان تمام امور کو چھوڑنا پڑے گا، کیونکہ یہ ’’لا الٰہ الا اللٰه ‘‘ کے معنی کے منافی امور ہیں۔
مسلمانوں کی غالب اکثریت
آج ’’لا الہ الا اللّٰہ‘‘ کے معنی کا صحیح فہم نہیں رکھتی
جبکہ آج کے مسلمان جو ’’لا الٰہ الا اللٰه ‘‘ کی گواہی دیتے ہیں وہ اس کے معنی اچھی طرح نہیں سمجھتے بلکہ وہ اس کا مکمل طور پر برعکس معنی سمجھتے ہیں۔ میں آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتا ہوں: ان میں سے بعض نے ’’لا الٰہ الا اللٰه ‘‘ کے معنی پر ایک رسالہ تالیف کیا [2] تو اس میں ’’لا الٰہ الا اللٰه ‘‘ کا معنی ’’لارب الا اللّٰہ‘‘ (اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی رب نہیں) کیا۔ یہ تو وہ معنی ہے جس پر مشرکین ایمان رکھتے تھے اور اسی پر وہ گامزن تھے، مگر ان کے اس ایمان نے انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[1] ۔ اللہ کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہے: {اِِنَّہُمْ کَانُوْا اِِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا اللّٰہُ یَسْتَکْبِرُوْنَo وَیَقُوْلُوْنَ اَئِنَّا لَتَارِکُوْا آلِہَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍ} (الصافات:35۔ 36) ’’ان مشرکوں سے جب یہ کہا جاتا تھا ’’لا الہ الا اللّٰہ‘‘ ’’اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں‘‘ تو وہ کہا کرتے تھے، اور کہتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودات کو ایک شاعر ومجنون کے کہنے پر چھوڑ دیں گے۔
[2] ۔ یہ شیخ محمد ہاشمی ہیں جو صوفی طریقہ ’’شاذلیہ‘‘ کے ملک شام میں تقریباً پچاس سال سے شیخ یا پیر صاحب ہیں۔