کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 189
و معلّمین پر بھی اس طرح پڑا کہ دین کے نام پر بڑی بڑی کتابیں لکھی گئیں۔ ان میں بھی موضوع اور ضعیف روایتیں بھری ہوئی ہیں جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان جھوٹی روایتوں سے بَری ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بڑی سختی کے ساتھ روکا ہے اور اس قسم کی موضوع روایتوں کو بیان کرنے کا انجام بڑا بھیانک بتایا ہے پھر بھی لوگ اس سے باز نہیں آتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ((کذب علی لیس ککذب علی أحدکم))[1] ’’یعنی میرے خلاف جھوٹ بولنا تم میں سے کسی کے خلاف جھوٹ بولنے کے مانند نہیں ہے۔‘‘ سلفی دعوت اس کے سخت خلاف ہے۔ بلکہ یہی وہ تنہا دعوت ہے جو ضعیف اور موضوع کو صحیح احادیث سے الگ کرتی ہے۔ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے منہج دعوت کا سرسری جائزہ: استاذ محمد عبد عباسی حفظہ اللہ نے اپنے خطاب میں ذکر کیا تھا کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کا شمار سلفی داعیوں میں ہوتا ہے۔ بات بالکل صحیح ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ عقیدہ میں بہت ٹھوس سلفی تھے اور آپ حضرات نے ان کے خطاب میں تفصیل سے سلفی دعوت کے بارے میں سماعت فرمایا۔ انہوں نے واضح انداز میں اس حقیقت کا اظہار کیا کہ سلفی دعوت کتاب و سنت کی طرف دعوت دیتی ہے۔ اس کا مقصد وحید یہ ہے کہ کتاب و سنت کی تعلیمات عام ہو۔ لوگ اسلام کو قرآن و حدیث کی روشنی میں جاننے اور پہچاننے کی کوشش کریں اور تقلید کو دین و مذہب نہ بنائیں بلکہ اس سے قطعی پرہیز کریں۔ جب سلفی دعوت کا مذہب اور منہج یہ ہے تو اب یہ حقیقت بھی جان لینی چاہیے کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ عقیدہ میں ٹھوس سلفی مذہب پر قائم تھے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اسلامی ممالک میں بالعموم اور نجد و حجاز علاقے میں بالخصوص دعوت توحید کو عام کرنے میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بعد محمد بن
[1] ۔ صحیح بخاری، 2/112، صحیح مسلم:3/1343۔