کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 184
اور باطنی طہارت اور پاکیزگی بہت ضروری ہے۔ ظاہری پاکیزگی یہ ہے کہ اس کا جسم اور کپڑا [1]
[1] /سے ملا ہے واضح رہے کہ ان کے کتنے مشائخ ایسے ہیں جنھیں کتاب و سنت کا ذرا بھی علم نہیں ہے چہ جائیکہ انھیں سلف صالحین کے راستے اور طریقے کی خبر ہو اور یہ بھی واضح رہے کہ بسااوقات انسان اپنے طور پر بعض اعمال کو اچھا تصور کرتا ہے لیکن وہی اعمال کتاب و سنت کے مخالف ہونے کی وجہ سے اللہ کے نزدیک حرام ہوجاتے ہیں کیونکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حکم نہیں دیا ہے۔ اس کی واضح مثال تین صحابی کا واقعہ ہے جو ازواج مطہرات کے گھر تشریف لے گئے اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات کے بارے میں سوال کرنے لگے جب انہیں بتایا گیا تو اس کو سن کر بعض نے کہا کہ میں شادی ہی نہیں کروں گا، بعض نے کہا میں کھانا ہی نہیں کھاؤں گا۔ بعض نے کہا میں سوؤں گا نہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی باتوں کو سنا تو فرمایا: ’’ما بال أقوام قالوا: کذا وکذا؟ کنتا أصلی وأنام، وأصوم وأفطر، واتزوج النسائ، فمن رغب عن سنتی فلیس منی۔‘‘ (صحیح بخاری 3/237، صحیح مسلم:2/102) ’’اس قوم کا کیا ہوگا جنہوں نے ایسی ایسی باتیں کہی ہیں، میں تو نماز بھی پڑھتا ہوں، سوتا بھی ہوں، روزے بھی رکھتا ہوں اور افطاری بھی کرتا ہوں اور عورتوں سے شادی بھی کرتا ہوں لہٰذا جس نے میری سنت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔‘‘ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اعمال پر نکیر کیوں کیا جبکہ ان کی نیتیں خالص تھیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے انکار کیا تھا کہ ان کے وہ اعمال اور طریقۂ کار شریعت کے خلاف تھے۔ کیونکہ اسلام میں رہبانیت نہیں ہے اسی طرح مسلسل نمازیں پڑھنا، شادی نہ کرنا اور مسلسل روزے رکھنا یہ سب شریعت کے خلاف ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر نکیر کی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام کی حیات مبارکہ میں کبھی کبھی ایسے مواقع آتے ہیں جن میں بعض صحابہ سے خلاف شرع اعمال سرزد ہوجاتے تھے پھر دوسرے صحابہ ان پر سختی سے نکیر کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ابن وضاح نے ’’البدع‘‘ ص37 میں صحیح سند کے ساتھ عبد اللہ بن جناب کا ایک واقعہ نقل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک جماعت کے ساتھ مسجد میں بیٹھے سورۂ سجدہ کی تلاوت کر رہے تھے اور رو بھی رہے تھے۔ اتنے میں میرے والد صاحب تشریف لائے ان کے ساتھ ان کی چھڑی بھی تھی وہ میری جانب متوجہ ہوئے تو میں نے کہا: اے اباجان! مجھ کو کیا ہوگیا ہے؟ مجھ کو کیا ہوگیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ کیا تم عمالقہ کے ساتھ نہیں بیٹھے ہوئے تھے؟ پھر کہا کہ لگتا ہے کہ یہ زمانہ حقیقت سے دور ہوتا جارہا ہے۔ اب غور کا مقام یہ ہے کہ وہ لوگ قرآن کی تلاوت کر رہے تھے لیکن اجتماعی شکل میں کسی مخصوص سورت کی تلاوت کرنا اور اس پر رونا یہ شریعت کے مخالف ہے۔ اس لیے یہ حرام ہے اسی لیے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادے کو زجر و توبیخ کیا تھا اور قریب تھا کہ ان کو اس پر سز ابھی دیتے۔ اس قسم کے بے شمار واقعات ہیں جنھیں کتابوں میں دیکھاجاسکتا ہے۔ اب صوفیاء کے اعمال اور اوراد و اذکار، ان کی نمازیں وغیرہ اسی انداز کی ہوتی ہیں۔ ان کے اوراد و اذکار جو مخصوص تعداد کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان کی بعض نمازیں، یہ سب خلاف شرع ہونے کی وجہ سے حرام ہیں اور خلاف شرع عمل سے کبھی تزکیہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ہر وہ عمل بجالانا چاہیے جو شریعت سے ثابت ہو تاکہ اس عمل سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو نہ کہ اس کا غضب۔