کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 182
یہاں اہل ذکر سے مراد وہ شخص ہے جس کے پاس قرآن و سنت کا علم ہو۔[1] متعلّم غیر مجتہد: مجتہد اور مقلد کے درمیان ایک طبقہ ایسا ہے جس کو ’’متعلّم‘‘ یا ’’طالب علم‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کو بھی زبان و ادب قرآن و حدیث اور تفسیر پر اچھی خاصی معلومات ہوتی ہے۔ شرعی علوم پر درک حاصل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ مجتہد کے مانند ہے یا مقلد کے مثل ہے۔ یہ ان سے بہت مختلف ہے۔ اس کو ان کے برابر نہیں کیا جاسکتا حالانکہ اگر اس کے پاس قرآنی آیات و احادیث کا تذکرہ ہوتا ہے تو وہ ان کے معانی و مفہوم کو اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہے۔ پھر بھی یہ نہیں کہا سکتا کہ اس کو ساری معلومات حاصل ہیں بلکہ کچھ ایسی چیزیں ضرور ہیں جن کا علم اسے نہیں ہوتا ہے اس کے لیے وہ علماء سے رجوع کرتا ہے۔ وہ لوگ اس کی بہترین رہنمائی کرتے ہیں اور صحیح معلومات فراہم کرتے ہیں۔ مقلدین کی عادت ہے کہ وہ دنیاوی امور میں بہت چھان بین کرتے ہیں۔ کوئی شے خریدنی ہوتی ہے تو کئی دکانیں دیکھ کر صحیح اور غیر صحیح، اصلی اور نقلی میں مکمل تمیز کرکے اصلی سامان خریدتے ہیں۔ لیکن شرعی امور میں اصل اور نقلی میں تمیز کرنے کی کوشش نہیں کرتے گویا کہ شرعی احکام کی ان کے نزدیک اتنی زیادہ اہمیت نہیں ہے جتنی دنیاوی امور کی اور یہی
[1] ۔ امام نووی رحمہ اللہ نے ’’المجموع‘‘ کے مقدمہ میں کہا ہے (1/79) ’’فتوی میں تساہل حرام ہے اور جس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ تساہل برتتا ہے اس سے فتویٰ لینا حرام ہے۔‘‘ امام مسلم نے صحیح مسلم کے مقدمہ میں محمد بن سیرین سے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں: ’’إن ہذا العلم دین، فانظروا عمن تاخذون دینکم۔‘‘ ’’یہ علم دین ہے لہٰذا اس شخص کو غور سے دیکھو جس سے دین حاصل کرتے ہو۔‘‘ سوال میں تساہل بہت مذموم فعل ہے۔ بعض لوگ تساہل کے لیے موضوع روایتوں سے استدلال کرتے ہیں جیسے ’’اختلاف امتی رحمۃ‘‘ ’’میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔‘‘ اور ’’من قلد عالما لقی اللّٰه سالما‘‘ جس نے کسی عالم کی تقلید کی وہ اللہ تعالیٰ سے صحیح و سالم ملاقات کرے گا۔ (سلسلہ ضعیفہ:(587) و (551) حالانکہ نفسانی خواہشات پر عمل کرنا گمراہی کی علامت ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰیہُ بِغَیْرِ ہُدًی مِّنَ اللّٰہِ } (القصص:50) ’’اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا جس نے بغیر اللہ کی ہدایت کے نفسانی خواہشات کی اتباع کی۔‘‘