کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 181
میں اجتہاد کی کوشش کرے، کیونکہ اجتہاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ اب اس کے سامنے تقلید کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
’’تقلید‘‘ عصر حاضر کا بہت نازک مسئلہ ہے اور یہ دین کے صحیح فہم میں بہت بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ تقلید کے پیروکار سے جب یہ سوال ہوتا ہے کہ تمہارا یہ عمل کس دلیل کی بنیاد پر ہے تو وہ صاف یہی کہتا ہے کہ ہم فلاں مذہب کے مقلد ہیں ہم اسی کے پیروکار ہیں ہم دلیل وغیرہ نہیں جانتے ہیں۔ اسی لیے سلفی حضرات اس مسئلے میں عوام الناس سے بہت مختلف ہیں۔ ان کے نزدیک دینی فہم اور شرعی احکام جاننے کے لیے ضروری ہے کہ براہ راست کتاب و سنت سے معلومات حاصل کی جائیں اس لیے اللہ تعالیٰ کا قول ہے:
{اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ} (الاعراف:3)
’’تم لوگ اس چیز کی پیروی کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی جانب سے نازل کی گئی ہے اور اللہ کو چھوڑ کر دوسرے اولیاء کی بات نہ مانو۔‘‘
اصل بات یہ ہے کہ دینی احکام و مسائل قرآن و حدیث سے ہی لینے چاہییں کیونکہ یہی دونوں اصل ہیں۔ لیکن ہر انسان کے اندر اتنی صلاحیت نہیں ہوتی ہے کہ وہ براہِ راست کتاب وسنت سے مسائل اخذ کرسکے۔ صاحب علم تو بآسانی کتاب و سنت سے مسائل اخذ کرسکتا ہے۔ لیکن ان پڑھ اور امی جس کے پاس دینی ذوق تو ضرور ہے لیکن لکھنا پڑھنا نہیں جانتا ہے اب ایسا شخص ایسے عالم کی بات پر عمل کرے گا جس کے بارے میں یہ معلوم ہے کہ وہ کتاب و سنت ہی سے مسائل اخذ بھی کرتا ہے اور بتاتا بھی ہے قابل اطمینان اور ثقہ بھی ہے جو نہ تو متعصب ہے اور نہ ہی مقلد۔
کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ} (الانبیائ:7)
’’اہل ذکر سے سوال کرو اگر تم نہیں جانتے ہو۔‘‘