کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 180
پہنچائے گی۔ بلکہ صالح نیت کے ساتھ ساتھ عمل کا صالح ہونا بھی ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا} (الکہف:110) ’’جو شخص اللہ سے ملاقات کی اُمید رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ عمل صالح کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے۔‘‘ نیت کے خالص ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے اور ہر قسم کے شرک سے باز رہے۔ اسی طرح کوئی عمل صالح اسی وقت ہوگا جب وہ سنت کے مطابق ہو۔ جیسا کہ مفسر ابن کثیر وغیرہ نے بیان کیا۔[1] بہرحال توحید کی تینوں قسموں کو جاننا اور اس پر پورے اہتمام کے ساتھ عمل کرنا ہی نجات کا ذریعہ ہے۔ اتباع کے باب میں سلفیت اور دوسرے مذاہب کا موقف: دوسرا اہم مسئلہ جس پر سلفی حضرات زیادہ زور دیتے ہیں اور اس کا خود اہتمام بھی کرتے ہیں وہ ہے مسئلہ اتباع یعنی اعمال میں کس کی اتباع کی جائے دینی احکام کہاں سے حاصل کئے جائیں، اسی طرح دین فہمی کا طریقہ کیا ہے؟ عام طور سے لوگوں کے ذہن و دماغ میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ بلوغت کے بعد ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ مذاہب اربعہ میں سے کسی مذہب کی تقلید کرے، اسی مذہب کو لازم پکڑے۔ اسی میں تفقہ حاصل کرے کسی بھی مسئلہ میں اس کی مخالفت ہرگز نہ کرے۔ وہ اس مذہب کی ایسی تقلید کرے کہ وہ عمل کرتا چلا جائے لیکن کبھی بھی اس عمل کی دلیل نہ پوچھے کہ یہ عمل کہاں سے ثابت ہے اور نہ ہی کسی مسئلہ
[1] ۔ کسی بھی عمل کے قبول ہونے کے لیے دو شرطیں ہیں: پہلی شرط: اخلاص یعنی وہ اپنے عمل میں مخلص ہو، دوسری شرط یہ ہے کہ وہ عمل سنت کے موافق ہو۔ یہی کلمہ توحید کا تقاضا بھی ہے کیونکہ ’’لا إلہ إلا اللہ‘‘ سے اخلاص کی طرف اشارہ ہے یعنی بندے کی توجہ خالص اللہ کے لیے ہو۔ ((وأنّ محمدا رسول اللّٰہ))سے متابعت نبی کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو چھوڑ کر کسی دوسرے امام یا عالم کے طریقے کو نہیں اپنانا چاہیے۔