کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 18
جہاں تک ان کے فعل کا تعلق ہے تو اس کو زیادہ ڈھونڈنے یا ریسرچ کی ضرورت نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کریم کے مکی دور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال اور دعوت غالباً محصور تھی اپنی قوم کو اس بات کی دعوت دینے پر کہ ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو جس کا کوئی شریک نہیں۔ جہاں تک تعلیم کا معاملہ ہے تو انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے جو صحیح بخاری ومسلم میں وارد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن روانہ فرمایا تو حکم ارشاد فرمایا: ((لیکن اول ما تدعہم الیہ: شہادۃ ان لا الٰہ الا اللٰه ، فان ہم اطاعوک لذلک… الخ الحدیث۔))[1] ’’سب سے پہلی چیز جس کی طرف تم انہیں دعوت دو وہ اس بات کی گواہی ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں، اگر وہ وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو پھر…… آخر تک جو حدیث ہے۔‘‘[2]یہ حدیث لوگوں کو معلوم ہے اور بہت مشہور ہے۔ ان شاء اللہ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ ( رضی اللہ عنهم ) کو اسی چیز سے ابتداء کرنے کا حکم فرمایا جس سے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء فرمائی تھی اور وہ توحید کی جانب دعوت تھی۔ بلا شبہ وہ مشرکین عرب جو اس بات کو خوب اچھی طرح سے سمجھتے تھے جو ان کی زبانی میں کہا جاتا تھا، ان میں اور عرب مسلمانوں کی آج کل ایک غالب اکثریت میں بہت بڑا فرق ہے، جنہیں اس بات کی آج دعوت نہیں دینی پڑتی کہ وہ زبان سے ’’لا الٰہ الا اللٰه ‘‘ کہیں کیونکہ یہ سب تو پہلے ہی اپنے مذاہب، طریقوں اور عقائد کے اختلافات کے باوجود اس کے قائل ہیں۔ یہ سب کہتے ہیں کہ ’’لا الٰہ الا اللٰه ‘‘ لیکن درحقیقت یہ اس بات کے زیادہ ضرورت مند ہیں کہ وہ اس کلمہ طیبہ کا فہم حاصل کریں۔ یہ ایک بالکل بنیادی فرق ہے ان اولین عرب میں جنہیں
[1] ۔ حدیث صحیح: رواہ البخاری: 1395 وفی غیر موضع، ومسلم 19، وابوداود: 1584 والترمذی: 625، کلہم من حدیث ابن عباس رضي الله عنه۔ [2] ۔ حدیث میں آگے یہ بیان ہوا ہے کہ ’’اگر وہ یہ شہادتیں تسلیم کر لیں تو پھر انہیں خبر دینا پنج وقتہ نماز کی فرضیت کی اگر وہ بھی مان لیں تو پھر خبر دینا زکوٰۃ کی فرضیت کے بارے میں۔ (مترجم)