کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 178
غور کیجیے کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے اور عرض کیا: ((أنت سیدنا، وابن سیدنا)) ’’یعنی آپ ہمارے سیّد ہیں اور ہمارے سیّد کے بیٹے بھی ہیں۔‘‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے ارشاد فرمایا: ((قولوا بقولکم ہذا او بعض قولکم فلا یستجرئنکم الشیطان۔))[1] ’’تم اپنے اس قول کو کہو ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں جری بنادے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا اس لیے کہا تھا کہ اس میں کچھ مخالف الفاظ تھے جیسے لفظ ’’ابن سیّدنا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کو ’’سیّد‘‘ نہیں کہہ سکتے کیونکہ وہ بھی مشرک تھے جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر تنبیہ کی تھی اس پر کچھ بچے اور بچیاں قصیدہ پڑھ رہی تھیں جس میں یہ جملہ تھا: ((وفینا نبی یعلم ما فی غد۔)) ’’یعنی ہمارے درمیان ایک ایسا نبی ہے جو کل کی باتوں کو جانتا ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سن کر سختی سے اس سے منع کیا اور فرمایا: ((لا یعلم مافی غد إلا اللّٰه عزوجل۔))[2] ’’یعنی کل کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔‘‘ اس کے علاوہ کسی کو نہیں۔ اس سخت تنبیہ کے باوجود لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی۔ بوصیری نے یہاں تک کہہ دیا: دع ما ادعتہ النصاریٰ فی نبیہم واحکم بما شئت مدحا فیہ واحتکم ’’یعنی تو نصاریٰ کی طرح یہ نہ کہہ کہ محمد اللہ کے بیٹے ہیں اس کے علاوہ جو چاہے کہہ۔‘‘
[1] ۔ مسند احمد: 3/153، 241، 249، عفان والحسین بن موسی الأشیب، کلاہما عن حماد عن ثابت، عن أنس بہ۔ اس کی سند صحیح ہے۔ شیخ البانی نے بھی اس کو صحیح کہا ہے۔ دیکھو: ’’الصحیحہ‘‘ (1097)۔ [2] ۔ مسند احمد: 6/359، صحیح بخاری: 3/374، ابوداؤد (4922)، ترمذی (1090)، ابن ماجہ (1892) خالد بن ذکوان المدنی، عب الربیع، ’’دعی ہذہ وقولی بالذی کنت تقولین‘‘ لفظ کے ساتھ البتہ جس لفظ کو شیخ نے ذکر کیا ہے وہ ابن ماجہ کا ہے۔