کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 177
ان صوفیوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ ان کے مشائخ ہر چیز پر قدرت رکھتے ہیں اور اگر وہ کسی چیز کو ’’کن‘‘ کہتے ہیں تو وہ ہوجاتی ہے۔ یہ بات تصوف کی کتابوں میں موجود ہے۔[1] ان کے علاوہ مشائخ کے بارے میں وہ بے شمار غلط عقائد و نظریات رکھتے ہیں جبکہ یہی شرک ہے۔ افسوس کہ متاخرین میں اس قسم کے عقائد بکثرت موجود ہیں۔ شعراء حضرات کے نعتیہ کلام میں بکثرت شرکیہ تصور پایا جاتا ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے اس سے منع کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ((لا تطرونی کما اطرت النصاری عیسی ابن مریم، فإنما أنا عبد فقولوا عبد اللّٰه ورسولہ۔))[2] ’’تم لوگ مجھ کو حد سے زیادہ نہ بڑھاؤ جس طرح نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو حد سے زیادہ بڑھادیا تھا میں فقط ایک بندہ ہوں لہٰذا تم اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔‘‘
[1] / چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں الحاد کرتے ہیں عنقریب وہ اپنے اس عمل کا بدلہ ضرور پائیں گے۔‘‘ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام میں الحاد یہ ہے کہ اس کو اس کے غیر نام سے پکارا جائے جس نام کو بدعتیوں نے ایجاد کرلیا ہے اور اس کا ثبوت کتاب و سنت میں نہیں ہے جیسے ’’یاھو‘‘ کہہ کر پکارنا وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کردیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کو اس کے ناموں سے پکارا جائے تو وہ دعائیں قبول کرتا ہے بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے اس طرح دعا کرتے ہوئے سنا: ((اللہم إنی أسئلک بأنی أشہد أنک أنت اللّٰه الذی لا إلہ إلا أنت الأحد الصمد، الذی لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد۔)) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لقد سألت اللّٰه بالإسم الذی إذا سئل بہ أعطی، وإذا دعی بہ أجاب۔)) (احمد5/349، 360، ابوداؤد:1493، 1494، ترمذی: 3425، والنسائی فی الکبری، ابن ماجہ: 3857) ’’تو نے اللہ سے اس کے اس نام سے سوال کیا ہے کہ جب اس نام سے اس سے سوال کیا جائے تو وہ دیتا ہے اور جب اس نام سے اس سے دعا کیا جائے تو قبول کرتا ہے۔‘‘ جو صفات کے ساتھ خاص ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جن صفات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے ثابت کیا ہے اور جن صفات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے لیے ثابت کیا ہے۔ ان کو اسی طرح ثابت کیا جائے نہ ان کے معانی بدلے جائیں نہ ان کو مخلوق کی صفات سے تشبیہ دی جائے بلکہ جس طرح وہ ثابت ہیں ان کو بالکل اسی طرح ثابت کیا جائے۔ اشاعرہ کے مانند ان کی تاویل بھی نہ کی جائے۔ [2] ۔ حمیدی (27) صحیح بخاری:1/256، ترمذی نے ’’شمائل‘‘ (324) عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتیبہ، عن ابن عباس، عن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی سند سے۔