کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 175
میں شامل ہے۔ لیکن یہ دعا کس سے کی جائے؟ مدد کس سے مانگی جائے؟ کیا اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں سے دعا کی جائے گی یا مدد مانگی جائے گی؟ ہرگز نہیں، یہ دونوں عبادت ہیں اور دونوں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے مانگی جائیں گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: {اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن} (الفاتحہ:5) ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد بھی طلب کرتے ہیں۔‘‘ ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ’’ اِیَّاکَ ‘‘ کو مقدم کیا ہے یہ دونوں جگہ دونوں فعلوں پر مقدم ہے اور عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جب مفعول کو فعل پر مقدم کردیا جائے تو تخصیص کا معنی دینا سے یہاں مراد معنی یعنی ’’تخصیص‘‘ ہی مراد ہے۔ یعنی ہم خاص کرکے اللہ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور اسی سے مدد بھی مانگتے ہیں۔ اس تخصیص کا مطلب یہ ہوا کہ اس عبادت کو ہم دوسروں کے لیے نہیں کرتے ہیں، ورنہ خاص کرنے کا کوئی معنی نہیں ہوگا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ قول بھی ہے:
{ادْعُوْنِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ} (المؤمن:60)
’’تم مجھ کو پکارو میں تمہاری پکار کو سنتا ہوں یقینا جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب وہ لوگ ذلت کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘
اس میں واضح انداز میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ دعا عبادت ہے اس کی مزید وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے ہوتی ہے آپ فرماتے ہیں:
((الدعاء ہو العبادۃ۔))
’’یعنی دعا ہی اصل عبادت ہے۔‘‘
یہی وضاحت اللہ تعالیٰ کے اس قول میں ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ} (الانعام:162)
’’تم کہو کہ بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا مرنا، میرا جینا اس اللہ کے لیے