کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 173
(1) توحید ربوبیت:… یہ ہے کہ اس بات پر ایمان و یقین ہو کہ اس کائنات کا کوئی خالق و مالک اور رازق ہے جو صفت کمال سے متصف ہے۔ (2) توحید الوہیت:… یہ ہے کہ عبادت کی تمام قسموں کو صرف اللہ کے لیے خاص کیا جائے جو ایک ہے اس کا کوئی شریک و ساجھی نہیں ہے اور یہ فطری امر ہے کہ جب وہی اللہ تنہا خالق و مالک، رازق، مدبر و حاکم ہے تو پھر اس کو چھوڑ کر دوسروں کو کیوں پکارا جائے نیز دوسروں کی عبادت کیوں کی جائے؟ کیا ان کی عبادت کی جائے جو خود محتاج ہیں؟ اور جو خود مخلوق بھی ہیں؟ جو نفع و نقصان کے مالک بھی نہیں، یہ کمزور و ناتواں انسان، انتہائی عاجز و بے کس مخلوق جو اپنے لیے بھی کسی قسم کے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہے کیسے تم اس کو پکارتے ہو اور اپنے اس رب کو چھوڑ دیتے ہو جو سب کا مالک بھی ہے اور جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے اور وہ رب جو کسی چیز کا جب ارادہ کرتا ہے تو صرف لفظ ’’کن‘‘ کہتا ہے اور وہ ہوجاتی ہے ایسا رب کیا تمہاری دعاؤں کو نہیں سنے گا؟ کیا وہ تم سے بعید ہے؟ کیا وہ ظالم ہے (نعوذ باللہ) تاکہ اس سے خوف محسوس کرکے دوسرے کی پناہ لیتے ہو؟ ہرگز نہیں۔ یقینا وہ رب تو انتہائی رؤف رحیم ہے۔ انتہائی مہربانی و رحم کرنے والا ہے۔ وہ بندوں کے ساتھ بے حد مہربان ہے۔ وہ پریشان و بے کس کی فریاد کو سنتا ہے بندے کی توبہ قبول کرتا ہے، وہ بندے سے بے حد قریب ہے۔ ایک انسان اپنے گمشدہ سواری کو پاکر جتنا خوش ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والے بندے سے خوش ہوتا ہے… اے ناداں انسان! تو ایسے مہربان و رحم کرنے والے معبود کو چھوڑ کر کیوں ایسے کمزورو ناتواں، عاجز و بے کس کی طرف پناہ لیتا ہے جو خود نفع و نقصان کا مالک نہیں۔ اسی لیے توحید الوہیت سب سے اہم ہے اور اسی اہم توحید کو لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث بھی ہوئے تھے اور یہی معنی ’’لا الہ الا اللّٰه وحدہ لا شریک لہ‘‘ کا ہے یعنی معبود صرف اللہ تعالیٰ ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ اسی کلمہ کے اقرار سے انسان دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے اور یہی وہ کلمہ ہے جس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ((من قال: لا إلہ إلا اللّٰہ فخلصا من