کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 171
(الروم:30) ’’اللہ کی وہ فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔‘‘ ہر دور اور ہر زمانے میں جب بھی انسانی نظریات و خیالات پر غور و خوض کیا گیا تو یہی نتیجہ نکلا کہ تقریباً ہر انسان کا یہی اذعان و یقین ہے کہ کوئی خالق ضرور موجود ہے جو مدبر بھی ہے اور حکیم بھی ہے صرف چند ملحدانہ نظریہ کے لوگ ہیں جن کو دھریہ، زندیق، ملحد اور کمیونسٹ بھی کہا جاتا ہے یہ لوگ خالق کے وجود پر یقین نہیں رکھتے۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ ان کی تعداد تو بہت زیادہ ہے روس، چین اور دوسرے کمیونسٹ ممالک کے لوگ اسی نظریہ عقیدہ کے ہیں تو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ ان ممالک کی اکثریت یا تو یہودی ہے یا نصاریٰ یا بت پرست جو کم از کم خالق کے وجود کا یقین تو رکھتی ہے لیکن دھریہ اور ملحدانہ نظریہ کے لوگ بہت کم ہیں یہ صرف حکام ہیں جن کے ہاتھ میں عسکری امور ہیں۔ رہے باقی لوگ تو ان کی عبادت گاہیں، کینسے وغیرہ موجود ہیں، وقتاً فوقتاً ان کا اعداد و شمار بھی ہوتا رہتا ہے۔ بہرحال دنیا کی کل آبادی کے اعتبار سے ان کی تعداد بہت ہی کم ہے۔ صحیح دین کی ضرورت: جیسا کہ گذشتہ سطورمیں آپ نے پڑھا ہے کہ اکثریت ایک معبود کے وجود کا یقین رکھتی ہے۔ مگر اس یقین کے ساتھ ان لوگوں کو کس چیز کی ضرورت ہے؟ ان کو ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر صحیح ایمان رکھیں، وہ صحیح ایمان جس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور گذشتہ تمام انبیاء علیہم السلام لے کر مبعوث ہوئے تھے۔ وہ خالص اور صحیح اعتقاد جس کا اعتبار اور شمار ہے، جو صاحب ایمان کو جہنم سے نجات دلاکر جنت میں داخل کرے گا وہی صحیح ایمان ہے اس کے علاوہ کفر ہے اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ کفار مکہ ایک خالق کے وجود پر ایمان رکھتے تھے۔ قرآن خود اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {وَ لَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ} (العنکبوت:61)