کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 170
نکلا کہ سلفی دعوت غالب ہوگئی اور پورا ملک توحید و سنت کا ملک بن گیا۔ شرک و بدعت کا ایسا خاتمہ ہوا جیسے کہ اس کاوجود ہی نہیں تھا۔ اس کا اثر دوسرے ممالک پر بھی اچھا پڑا۔ اس کی تفاصیل کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔
سلفی دعوت کے اصول و مبادی:
اب ہم آپ کو یہ بتانا چاہیں گے کہ سلفی دعوت کی حقیقت کیا ہے؟ سلفی دعوت کا وجود کیونکر ہوا؟ نیز وہ کون سے بنیادی افکار و نظریات ہیں جن پر سلفی دعوت قائم ہے؟
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ سب سے اہم اور بنیادی امر جس پر سلفی دعوت قائم ہے وہ عقیدۂ توحید ہے یہ ایسا نازک مسئلہ ہے جس کے بارے میں اکثر مسلمان غلط فہمی کا شکار ہوگئے ہیں۔ نہ صرف عوام الناس طبقہ بلکہ خاص خاص تعلیم یافتہ طبقہ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ ان کے نزدیک عقیدۂ توحید یہ ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق، مدبر، رازق اور حاکم ہے جو صفت کمال سے متصف ہے۔ اسی حقیقت کو ثابت کرنے میں ان لوگوں نے اپنے آپ کو تھکادیا اور اسی حقیقت سے اپنی کتابوں کو بھی بھردیا۔ حالانکہ آپ لوگوں نے کئی بار استاذ محترم کی زبانی اس حقیت کو سنا ہے[1]جبکہ یہ فطری امر ہے اس کے لیے زیادہ دلائل و براہین کی ضرورت نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: {اَفِی اللّٰہِ شَکٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ} (ابراہیم:10) ’’کیا اللہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا پیدا کرنے والا ہے۔‘‘ {فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ}
[1] ۔ اس کا نام ’’دین العجائز‘‘ یعنی فطری اعتقاد تھا جس کا تقاضا فطرت سلیمہ کرتی تھی جس فطرت پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا تھا اور جس فطرت سلیمہ نے ابراہیم علیہ السلام کو اللہ کے بارے میں غور و فکر کرنے پر مجبور کردیا تھا کہ اس مخلوق کا کوئی خالق ضرور ہے۔ کاش کہ لوگ اس فطرت کو سمجھ لیتے۔ اس کے برخلاف مختلف فرقے وجود میں آگئے مثلاً جہمیہ جنہوں نے ’’تنزیہہ‘‘ کو حجت بنا کر تمام صفات باری کا انکار کردیا۔ گویا یہ لوگ عدم کی پوجا پاٹ کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ تشبیہ میں غور و خوض کرنے لگے یہاں تک کہ تجسیم کے قائل ہوگئے۔ کچھ صفات کی بے جا تاویل کرنے لگے۔ کچھ اللہ کی عبادت میں دوسروں کو شریک کرنے لگے جیسے ولی، میت، جن، وغیرہ وغیرہ۔ ان کے نام پر قربانیاں پیش کرتے ہیں۔ نذریں مانتے ہیں ان سے دعائیں مانگتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔