کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 17
{وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ} (النحل: 36) ’’ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا جس نے یہی دعوت دی کہ ایک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔‘‘ پس یہ لوگ اس بنیادی اساس اور ارکان اسلام میں سے رکن اول کی قطعاً پرواہ نہیں کرتے جیسا کہ تمام مسلمان اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ یہ وہی بنیادی اساس ہے جس کی دعوت تمام رسولوں میں سے پہلے رسول نوح علیہ السلام تقریباً ہزار سال دعوت دیتے رہے۔ سب جانتے ہیں کہ پچھلی شریعتوں میں ان احکام عبادات ومعاملات کی تفصیل موجود نہ تھی جو ہمارے دین میں معروف ہیں کیونکہ یہ دین تمام سابقہ شریعتوں اور ادیان کو ختم کرنے والا ہے، اس کے باوجود نوح علیہ السلام اپنی قوم میں پچاس کم ہزار سال رہے اور اپنا تمام تر وقت اور اہتمام اسی دعوت توحید پر صرف فرمایا لیکن ان کی قوم نے ان کی دعوت سے اعراض برتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی محکم کتاب میں بیان فرمایا: {وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَلَا یَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْرًا} (نوح: 23) ’’اور انہوں نے کہا ہرگز نہ چھوڑنا اپنے معبودات کو اور نہ چھوڑنا ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو۔ ‘‘ پس یہ دلائل اس بات پر قطعی دلالت کرتے ہیں کہ وہ داعیان کو جو ’’صحیح و برحق اسلام‘‘ کی جانب دعوت دینا چاہتے ہیں ان کے نزدیک سب سے اہم چیز اور جس کی دعوت کا ہمیشہ اہتمام خاص کرنا چاہیے وہ دعوت توحید ہے اور یہی معنی ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا: {فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا اللّٰہُ} (محمد: 19) ’’جان لو! اس بات کا علم حاصل کرو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں۔‘‘ اور یہی تھی سنت نبوی( صلی اللہ علیہ وسلم ) عملاً وتعلیماً۔