کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 169
ناگفتہ بہ حالات میں ضرورت اس بات کی تھی کہ کوئی اٹھے اور اسلام کی شمع کو پھر سے روشن کرے۔ حق کو بال سے الگ کرکے لوگوں کے درمیان حق کو واضح کردے تاکہ جو شخص ہلاکت کے عمیق غار میں کودنا چاہے وہ بھی واضح دلائل کے ساتھ کودے اور جو شخص حق کی واضح اور روشن راہ میں خوش عیش زندگی گزارنا چاہے وہ بھی واضح دلائل کے ساتھ بہترین زندگی گزارے۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہی فریضہ انجام دیا اور احقاق حق اور ابطال باطل میں اپنی پوری زندگی فنا کردی۔ ان کے بعد ان کے شاگرد عظیم علامہ ابن القیم رحمہ اللہ اور علامہ ابن کثیر آئے اور اسی نقش قدم کو اختیار کیا۔ جس کو علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے روشن کیا تھا۔ لیکن دونوں انتہائی مظلوم و بے کس تھے۔ اگرچہ مادی غلبہ دشمنوں کو حاصل تھا لیکن معنوی غلبہ اہل سنت کو ضرور حاصل تھا۔ جیسا کہ حدیث نبوی ہے: ((ولا تزال طائفۃ من امتی ظاہرین علی الحق، لا یضرہم من خذلہم، حتی یأتی أمر اللہ، وہم ظاہرون علی الناس۔))[1] ’’میری امت کی ایک جماعت برابر حق پر غالب رہے گی رسوا کرنے والے ان کو کچھ ضرر نہیں پہنچا سکیں گے، یہاں تک اللہ کا حکم آجائے گا اور وہ لوگوں پر غالب رہیں گے۔‘‘ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے دور میں سلفی دعوت کی تجدید: جس وقت نجد کا پورا علاقہ ضلالت و گمراہی کے گھنگھور گھٹاؤں میں گھرا ہوا تھا، شرک و بدعت نے پورے ملک میں اپنا سکہ جما رکھا تھا۔ ایسے نازک حالات میں شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے توحید کا علم بلند کرنا شروع کیا۔ شرک و بدعت کے خلاف توحید و سنت کی شمع روشن کرنے میں مصروف ہوگئے۔ اس راہ میں بے شمار اذیتیں برداشت کیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدد کی، وقت کے امراء اور حکمرانوں نے آپ کا ساتھ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ
[1] ۔ مسند احمد: 3/436، 5/34،35، الآحاد المتانی لإبن ابی عاصم:2/33، وابن ابی شیبۃ:6/409، ترمذی:(2192)، ابن ماجہ:(6) وابن حبان (موارد:2313) اس کی سند صحیح ہے۔