کتاب: سلفیت (تعارف وحقیقت) - صفحہ 168
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے زمانہ میں سلفی دعوت کی تجدید: علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے زمانہ میں علم کلام پروان چڑھ چکا تھا۔ متکلمین کے نظریات و خیالات، اغیار کی ثقافت اور تہذیب مسلمانوں کے دلوں میں گھرچکی تھیں۔ بہت ہی کم مسلمان ایسے تھے جو کتاب و سنت کے منہج پر قائم تھے اور سلف صالحین کے طریقہ کے پابند تھے۔ اس وقت شدت سے اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ اسلام کی خالص دعوت کو دوسری دخیل دعوتوں سے ممتاز کیا جائے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تالیفات، چھوٹے بڑے رسالوں نے اس سلسلے میں بہترین کردار ادا کیا۔ ان کتابوں نے وہ صحیح اسلام پیش کیا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر مبعوث ہوئے اور جس پر صحابہ کرام قائم تھے۔ حق و باطل کے درمیان وہ کتابیں فرق واضح کرتیں۔ بہرحال علامہ ابن تیمیہ نے اپنے مناظرات، رسائل و کتب سے مخالفین پر حجت قائم کردی۔ اب ان کے مخالفین کے لیے اس بات کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ عداوت ود شمنی کی بنیاد پر آپ کی مخالفت کریں۔ الحمد للہ اس دعوت کو اس زمانے میں بھی نمایاں مقام حاصل تھا۔ اس وقت دعوت کو ’’دعوۃ السلف‘‘، ’’منہج السلف‘‘ اور ’’طریقۃ السلف‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا اگرچہ اس سے پہلے بھی ان کلمات کا استعمال ہوچکا تھا اور شاعر کا مندرجہ ذیل شعر بھی اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے: وکل خیر فی اتباع من سلف وکل شر فی ابتداع من خلف ’’ہر قسم کی بھلائی سلف صالحین کی اتباع میں ہے اور ہر قسم کی شر اور برائی متاخرین کی بدعات و خرافات میں ہے۔‘‘ جیسا کہ میں نے اس سے پہلے کہا تھا کہ صوفیانہ نظریات و عقائد، اس کے طرق و سلاسل، متکلمین کے آراء و افکار، مذہبی تعصب اور نوع بنوع بدعات و خرافات لوگوں کے ذہن و دماغ میں پیوست ہوگئے تھے موضوع اور ضعیف روایات ہی کو دین سمجھا جانے لگا تھا۔ ایسے حالات میں اسلام اور اس کی خالص اور روشن تعلیمات بالکل اجنبی ہوگئی تھیں۔ ان